منگل، 8 ستمبر، 2015

راشد منہاس: وہی منزلیں، وہی راستے

یہ میری کتاب راشد منہاس کے باب "وہی منزلیں، وہی راستے" کا کچھ حصہ ہے جس میں راشد منہاس شہید نشانِ حیدر کے ذہن پر جنگِ ستمبر کے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ جنگ کے وقت راشد کی عمر ۱۴برس تھی۔ یہ کتاب ۲۰۱۰ء میں الفتاح اکیڈمی نے فضلی سنز کراچی کے تعاون سے شائع کی۔

[راشد منہاس کے والد] مجید صاحب کی رہائش گاہ راولپنڈی میں ملٹری کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی حدود میں واقع تھی۔ ان کے گھر سے بمشکل ڈھائی سو گز کے فاصلے پر طیارہ شکن توپیں نصب تھیں۔ اور ان سے ذرا آگے پاکستانی فوجیوں کے مورچے قائم تھے۔ راشد ان دنوں نویں جماعت میں داخلہ لے چکا تھا۔ جنگ کے دنوں میں وہ بھائیوں سمیت فوجیوں کے پاس چلا جاتا اور ان سے مختلف امور کے بارے میں دریافت کرتا رہتا۔ فوجی بھی بڑی خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ یوں جنگ کے دنوں میں راشد نے سپاہیوں کو بہت نزدیک سے دیکھ لیا اور اُن کی سخت کوشی، جراتمندی اور متحرک زندگی سے خاصا متاثر ہوا۔
ان دنوں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے بھی جنگی ترانے نشر ہو رہے تھے۔ راشد کو پنجابی نغمہ ”جنگ کھیڈنیئں ہوندی زنانیاں دی“ بیحد پسند آیا۔ اس کا مفہوم کچھ یوں تھا: ”آج ہندیوں نے جنگ کی بات چھیڑی تو سخت حیرت ہوئی۔ مہاراج! یہ تلوار کی کھیل ہے جو عورتوں کے بس کی بات نہیں پرودرگار کی قسم!شہداء کو رسولِ پاک کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاد کا یہ لمحہ ہم پاکستانیوں کے لیے تقدیر کا قیمتی تحفہ ہے۔“
جنگ کے دوران بہادر سپاہیوں نے اہم کارنامے سرانجام دیے تھے جن سے تھوڑی بہت آگاہی قوم کو حاصل ہوتی رہی تھی۔ مگر انفرادی جرات  کی بیشتر تفصیلات جنگ کے بعد بھی سامنے آئیں اور آیندہ کئی ماہ تک مقبول ترین موضوعِ گفتگو بنی رہیں۔بہادری کے قصے گھر گھر سنائے جاتے رہے۔
ستمبر کے اخیر میں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو بعد از مرگ نشانِ حیدر پیش کیا گیا۔ میجر عزیز بھٹی نے جنگ کے دنوں میں برکی کے اہم محاذ پر بے مثال ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے فقط ایک کمپنی کے ساتھ دشمن کے پورے بریگیڈ کا سامنا کیا اور مسلسل چھ دن رات اسے روکے رکھا۔ اس دوران نہ انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور نہ چند گھنٹوں سے زیادہ سوئے۔ مسلسل رَت جگوں، انتھک مشقت اور انتہائی بیخوفی سے وطنِ عزیز کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے مگر اُن کا لہو رنگ لایا۔ دشمن کبھی لاہور تک نہ پہنچ سکا۔
عزیز بھٹی کے کارنامے نے راشد کو بطورِ خاص متاثر کیا۔ وہ سرفراز احمد رفیقی، منیرالدین، یونس حسن اور علاالدین جیسے ہواباز شہدا سے بھی متاثر ہوا تھا۔
راشد سب کو اِن بہادروں کے کارنامے سناتا رہتا۔ ایم ایم عالم کا واقعہ اُس کے دل میں شدید تڑپ پیدا کر دیتا تھا۔ ایک دن اُس نے کہا، ”میں ایم ایم عالم سے بھی زیادہ جہاز گراوں گا"۔ رفیقی اور عزیز بھٹی اُس کے آئیڈیل تھے۔
کیپٹن نصیر احمد نے بھی جنگ ستمبر میں حصہ لیا تھا۔ سیالکوٹ کے نزدیک ظفروال کے گاوں میں وہ اپنی جان پر کھیل گئے اور نہایت دلیری سے دشمن کا مقابلہ کر کے اس علاقے کو بچا لیا۔ اس دوران وہ شدید زخمی بھی ہوئے۔ جنگ کے بعد انہیں کچھ عرصہ ہسپتال میں گزارنا پڑا۔ اُنہیں ستارہء  جرات کا اعزاز عطا ہوا اور صدر ایوب خاں ان سے ملنے ہسپتال آئے۔
راشد بھی اکثر اُن کی عیادت کو جاتا تھا اور ان سے بڑی دلچسپی کے ساتھ واقعات دریافت کرتا۔ اُن کے دوست میجر فیاض اور برگیڈیئر حسنین بھی جنگِ ستمبر میں شامل تھے اور انہوں نے بڑے خونریز معرکوں میں شرکت کی تھی۔ وہ بھی راشد کی دلچسپی کا مرکز بنے رہے۔ ان واقعات کو سن سن کر وہ خوش ہوتا رہا۔
اس سال کے اواخر تک مجید صاحب راولپنڈی میں رہے اور یہ محفلیں بھی قائم رہیں۔ راشد کے دل میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی کہ وطن کی حفاظت کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے۔ فوج، دفاع اور جنگ کے خیالات اُس کے ذہن پر چھا گئے۔ یہ اُس کی زندگی کا اہم موڑ تھا۔
٭
دسمبر میں مجید صاحب نے کیپٹن نصیر احمد کو اپنا داماد بنا لیا۔ راشد کی باجی فریدہ منہاس سے اُن کی شادی ہو گئی۔ یوں راشد اور کیپٹن نصیر کا تعلق گہرا ہو گیا۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔