جمعہ، 30 ستمبر، 2016

دو قومی نظریہ اور ہم سب



 بعض دوستوں نے اُن سوالوں کے جوابات کی فرمایش کی ہے جو حال ہی میں "قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریہ ۔۔۔ چودہ سوال" کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔ شروع کے چار سوالوں پر قناعت کر رہا ہوں۔ بشرطِ فرصت باقی پھر کبھی سہی۔ 

سوال ۱
اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس کا اب دو قومی نظریہ سے کیا تعلق ہے؟
 ممکنہ جواب: اگر نظریے سے مراد مسلم قومیت کا وہ تصور ہے جو مسلم لیگ کی قراردادوں میں درج ہے اور جس کی مفصل وضاحت لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کی جاتی رہی، تو پاکستانی قوم کا اُس کے ساتھ وہی تعلق ہے جو سوالات پوچھنے والے نے تمہید میں خود ہی بیان کیا ہے یعنی اُس کی بنیاد پر اُس ریاست کے قیام کا مطالبہ پیش کیا گیا جہاں اب یہ قوم رہتی ہے۔

یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ آج اُس کی بجائے کسی اور چیز کو "دوقومی نظریہ" کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں تو "ہم سب" کا فرض ہے کہ لیگ کے اصل نظریے کو مزید واضح کریں تاکہ ذہنی انتشار کم ہو اور پھر متفقہ طور پر جو راہ بھی پسندیدہ ٹھہرے وہی اختیار کر لی جائے۔  

سوال ۲
 برطانوی حکمرانوں، آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس سمیت تمام سیاسی فریقوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ پاکستان ایک قوم کے طور پر وجود میں آیا۔ اب یہاں دو قومی نظریے پر اصرار کا مطلب کیا ہے؟
ممکنہ جواب: یہ بات بحث طلب ہے کہ تمام سیاسی فریقوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ۳ جون کے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے باوجود قرارداد منظور کی جس میں دو قومی نظریے کو باطل قرار دیا گیا اور تقسیم کو بھی ایک طرح سے عارضی قرار دیتے ہوئے اس کے بعض پہلوؤں کی نفی کی گئی۔ ممکن ہے کہ اس طرح کانگریس نے اپنی دانست میں "اتفاق کر لیا" ہو مگر لیگ کے نقطۂ نظر سے تو کانگریس حسبِ سابق اُس اصول کے انکار پر مصر تھی جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آ رہا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو عارضی ریاست بھی قرار دے رہی تھی۔

 اگر یہ سوال اس وجہ سے پوچھا جا رہا ہے کہ "پاکستان ایک قوم کے طور پر وجود میں آیا" جبکہ "دو قومی نظریہ" کی اصطلاح ایک سے زیادہ قوموں کی طرف اشارہ کرتی ہے تو ہمیں مسلمانوں کے اُس سیاسی و قانونی نظریے کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو لیگ کے لٹریچر میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ لیگ کی دانست میں اُس نظریے میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ اُس کی بنیاد پر مختلف مذاہب کے لوگ ایک ریاست کے ایسے شہری بن جائیں کہ مذہب و عقیدہ بھی سیاسی وحدت کی راہ میں حائل نہ ہو۔

ممکن ہے کوئی پوچھے کہ مسلم قوم کے دامن میں ایسی چیز تھی تو لیگ نے متحدہ ہندوستان ہی میں یہ کام کیوں نہ کر دکھایا اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیوں کیا۔ لیگ نے اپریل ۱۹۴۶ء میں جو قرارداد منظور کی جس میں پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا، اُس میں واضح طور پر درج ہے کہ علیحدہ ریاست کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ ہندو اکثریت نے جو نظریات اپنا رکھے ہیں وہ ہندوستان میں ایک متحدہ قومیت کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں جبکہ مسلم قوم اپنے پاس جو نظریات رکھتی ہے اُن کی بنیاد پر متحدہ قومیت تشکیل دی جا سکتی ہے۔

اگر کوئی اسے محض جذبات پر مبنی ایک دعویٰ سمجھتا ہے تو وہ پاکستان کے آنجہانی چیف جسٹس آر اے کارنیلئیس کی تحریروں کی طرف رجوع کرے۔ ایک رومن کیتھولک عیسائی کی طرف سے ٹھنڈی ٹھار قانونی زبان میں پوری وضاحت حاضر ہے۔

سوال۳
پاکستان کی ریاست بین الاقوامی نقشے پر ایک آزاد ریاست ہے یا اس کا ہندوستان کی ریاست کے ساتھ جغرافیائی ہمسائیگی کے علاوہ بھی کوئی آئینی تعلق ہے؟ اگر ایسا کوئی تعلق نہیں تو پاکستان کے باشندوں سے اس دو قومی نظریے پر اصرار کیوں کیا جائے جو اب ماضی کے ایک سیاسی موقف کی حیثیت رکھتا ہے؟
ممکنہ جواب: مسلم لیگ نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد مسلم قومیت کا تصور "ماضی کے ایک سیاسی موقف" کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ دلیل کہ اب پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اس لیے دوقومی نظریہ ماضی کا سیاسی موقف بن چکا ہے، صرف اُس صورت میں پیش کی جا سکتی ہے جب "دو قومی نظریہ" کے منفی معانی سامنے رکھے جائیں جو عام طور پر کانگریس اور دوسرے معترضین کی طرف سے پروپیگنڈا کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ لیگ کے نزدیک تو مسلم قومیت کا مطلب ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے پاس سیاست و قانون کا ایک مخصوص نظریہ موجود ہے۔ پھر ریاست کے وجود میں آنے سے اُس نظریے کی حیثیت "ماضی کے ایک سیاسی موقف" کی کیسے ہو گئی؟ یہ تو بالکل یوں ہی ہے جیسے رُوس میں اشتراکی انقلاب کے بعد کوئی کہتا کہ انقلاب آ جانے کی وجہ سے اشتراکی نظریے کی حیثیت "ماضی کے ایک سیاسی موقف" کے علاوہ کچھ نہیں رہی۔

سوال ۴
۔۱۹۷۱ میں پاکستان سے بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔ ۱۹۴۷ کے متحدہ ہندوستان میں اب تین خود مختار اور آزاد ریاستیں موجود ہیں۔ کیا پاکستان بنگلہ دیش پر کوئی دعویٰ رکھتا ہے؟ کیا ۱۹۴۷ کے تناظر میں دو قومی نظریہ اب تین قومی نظریہ بن چکا ہے؟
ممکنہ جواب: یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے۔ غور کیجیے تو اِس سوال کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ کسی ریاست میں رہنے والے تمام لوگ لازماً ایک ہی قوم ہوتے ہیں جبکہ دوسری ریاست میں رہنے والے لوگ لازماً مختلف قوم ہوتے ہیں۔ لیکن آپ "دوقومی نظریہ" کا جو بھی مفہوم لیجیے، وہ بہرحال اِس اُصول کی نفی پر ہی اُستوار ہو گا کہ ایک ریاست کے باشندے لازماً ایک قوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سوال کا الجبرے والا جواب تو یہی بنتا ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی آمد سے پہلے ایک قوم تھے تو اُن کے جانے کے بعد بھی ہیں کیونکہ انگریزوں کی آمد سے پہلے بھی خطے میں متعدد ریاستیں ہوتی تھیں اور لیگ کا دعویٰ تھا کہ ان مختلف ریاستوں میں بٹے ہونے کے باوجود یہ سب مسلمان ہمیشہ ایک قوم رہے۔ آپ چاہیں تو لیگ کا دعویٰ مسترد کر سکتے ہیں جیسا کہ کانگریس نے کیا۔ لیکن اپنے موقف کو لیگ کے سر نہیں تھوپ سکتے۔

لیگ کے موقف کی روشنی میں وہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا جسے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلمان تب ایک قوم تھے جب بابر نے ابراہیم لودھی سے اور ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے جنگ کی تھی، اگر وہ تب ایک قوم تھے جب اورنگزیب عالمگیر دکن کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف جنگ کر رہے تھے یا جب نظام دکن نے سلطان ٹیپو کے خلاف جنگ لڑی تھی تو پھر ہندوستان اور پاکستان میں بٹ جانے کے بعد یا بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے سبب یہ حقیقت کیسے بدل جائے گی؟ آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم قومیت اُس وقت بھی وجود نہیں رکھتی تھی جب لیگ اس پر اصرار کر رہی تھی لیکن پھر ۱۹۴۷ اور ۱۹۷۱ کے حوالوں کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ایسے حوالے تو ماضی کے زمانے میں اور بھی زیادہ  دستیاب ہیں۔

یہ مختصر جواب ہے۔ مفصل جواب لیگ کی قراردادوں اور لٹریچر میں بلکہ خود کانگریس کے بعض خطباتِ صدارت میں بھی موجود ہے۔ میری آیندہ تصنیف "اقبال: دورِ عروج" میں اس قسم کے بہت سے بنیادی ماخذ پیش کیے جا رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ غور و فکر کی مزید راہیں کھلیں گی۔
مکمل تحریر >>