اتوار، 22 نومبر، 2015

آج وحید مراد کے بارے میں

چند ہفتے قبل میری کتاب Waheed Murad: His Life and Our Times شائع ہوئی ہے جو میرے خیال میں وحید مراد کی پہلی مکمل سوانح حیات ہے۔ یہ کتاب آن لائن بک اسٹورز مثلاً امیزن وغیرہ سے با آسانی دستیاب ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی اس کا پاکستانی اڈیشن اور ترجمہ بھی پیش کر سکوں گا۔

البتہ ایک ویب سائٹ پہلے ہی حاضر کر چکا ہوں جہاں سے وحید مراد کے بارے میں بہت سی مفید اور دلچسپ معلومات دستیاب ہو سکتی ہیں۔ اُس کا پتہ یاد رکھنا بہت آسان ہے یعنی

جو لوگ اقبالیات کے موضوع پر میری تحقیق سے واقف ہیں وہ شاید بخوبی واقف ہوں گے کہ میں نے وحید مراد کی سوانح کیوں لکھی ہے۔اس کی کافی وضاحت پہلے ہی کر چکا ہوں ۔ اس لیے آج اُس موضوع سے ہٹ کر کچھ ایسی معلومات پیش کر رہا ہوں جو شاید سب کی دلچسپی کا باعث ہوں۔ یہ دراصل میری وحید مراد کی سوانح کے ابتدائی صفحات کا ترجمہ ہے اور وحید مراد کے خاندانی پس منظر پر مشتمل ہے۔


وحید مراد کے آبا و اجداد کسی زمانے میں دکن کی بہمنی سلطنت سے وابستہ تھے۔ یہ جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک عظیم الشان حکومت تھی۔ وحید کے اجداد یہاں قریب قریب شاہی خاندان میں شمار ہوتے تھے۔ ۱۵۱۷ء میں یہ ریاست ابتری کی شکار ہو کر مختلف حصوں میں تقسیم ہونے لگی۔ اس موقع پر وحید کے اجداد نے کشمیر کے مسلمان حکمران کی دعوت پر وہاں ہجرت کی۔ اُس  کے بعد کسی وقت اس خاندان کے لوگ "نَو بہمنی" یعنی نئے بہمنی کہلانے لگے۔
اس زمانے میں کشمیر دنیا بھر میں علم و ثقافت کے مرکز کے طور پر مشہور ہو رہا تھا۔ اسے "ایرانِ صغیر" یعنی چھوٹا ایران بھی کہا جاتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں یہاں کے حالات بھی بگڑنے لگے۔ کشمیر سے بہت سے خاندان ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہونے لگے۔ نوبہمنی خاندان بھی پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں منتقل ہو گیا۔ اس خاندان کے ایک شخص شیخ کرم الٰہی تھے انیسویں صدی میں سیالکوٹ کی ایک بارسوخ شخصیت ہوئے جنہیں "رئیسِ اعظم" بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی حویلی کا نام "کرم لاج" تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس خاندان کے پاس بعض دوسری املاک تھیں، مثلاً "شیخاں دا باغ" اور "بابے دی بیری" نامی کنواں وغیرہ۔
وحید کے دادا شیخ ظہور الٰہی مراد اِسی خاندان میں ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے۔  وہ اور اُن کے چھوٹے بہن بھائی اس خاندان کے اولین افراد تھے جن کے ناموں کے آخر میں لفظ "مراد" لگایا گیا۔ ان بہن بھائیوں کے نام ظہور الٰہی، فیروز الدین، خورشید بیگم، احمد بیہ بی، مہر الٰہی اور فضل الٰہی تھے۔ وجہ معلوم نہیں ہے لیکن قیاس کے گھوڑے دوڑائے جائیں تو سب سے پہلے تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ مغربی ممالک کے برعکس ہمارے یہاں نام کے آخری لفظ کے لیے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہیں تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ ظہور کی پیدایش سے اُن کے والدین کی کوئی "مراد" بر آئی ہو اس لیے یہ لفظ اُن کے نام کے ساتھ لگا دیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ تصوف میں "مراد" ایک خاص قسم کے مرید کو کہتے ہیں جسے پرودگار خود منتخب کر کے توحید کا مظہر بنا دے۔ ترکی کے عثمانی سلطانوں میں بھی مراد بیحد مقبول نام تھا اور اِس نام کے کئی بادشاہ اس خاندان میں گزرے تھے۔ مسلمان عام طور پر اُنہیں خلیفہ سمجھتے تھے اور ہندوستان میں بھی اُن کے ساتھ عقیدت عام تھی۔
شیخ ظہور الٰہی مراد نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے اسکاچ مشن اسکول میں حاصل کی۔ اُن کے اساتذہ میں مولوی میر حسن بھی شامل تھے جن کی سب سے زیادہ شہرت علامہ اقبال کے اُستاد کی حیثیت میں ہے )علامہ نے اسی اسکول سے پرائمری تعلیم اُس برس مکمل کی تھی جب ظہور پیدا ہوئے(۔ میر حسن ویسے بھی اپنے زمانے کی ایک ممتاز شخصیت تھے۔ وہ سر سید احمد خاں کے وفادار ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بانیوں میں سے بھی تھے جو برصغیر میں مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم تھی اور بعد میں اسی تنظیم نے آل انڈیا مسلم لیگ کو جنم دیا۔
ظہور  مولوی میر حسن کے نمایاں شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اقبال اکادمی نے مولوی میر حسن کی جو سوانح شائع کی ہے جسے صدارتی اقبال ایوارڈ بھی مل چکا ہے، اُس میں مولوی صاحب کے شاگردوں میں ان کا نام اور مختصر تعارف شامل ہے۔ انہوں نے آگے چل کر قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل بن گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی فیر الدین مراد نے طبعیات یعنی فزکس کی تعلیم حاصل کی اور ایف ڈی مراد کے نام سے پورے برصغیر میں شہرت حاصل کی۔ وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہء طبیعات کے صدر بھی ہوئے۔ آج بھی علیگڑھ یونیوسٹی میں ایم ایسی سی فزکس میں اول آنے پر اُن کے نام تمغہ "ایف ڈی مراد امام الدین میڈل" دیا جاتا ہے۔ سائینس کے موضوع پر ایف ڈی مراد کی ایک تحریر اُس درسی کتاب میں بھی شامل تھی جسے علامہ اقبال اور اُن کے شاگرد حکیم احمد شجاع نے "اُردو کورس" کے عنوان سے مرتب کیا تھا۔ 
ظہور کے سب سے چھوٹے بھائی شیخ فضل الٰہی تھے۔ اُن کے صاحبزادے انور مراد بعد میں پاکستان نیوی کے اعلیٰ عہدے دار ہوئے اور پھر ترکی اور سری لنکا میں پاکستان کے سفیر بھی مقرر ہوئے۔
خود ظہور کسی زمانے میں بیگم صاحبہ بھوپال کے قانونی مشیر بھی مقرر ہوئے۔ سیالکوٹ میں وہ غریب موکلوں کے مقدمے کسی معاضے کے بغیر لڑنے کے لیے مشہور تھے۔ سماجی برائیوں کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں بھی پیش پیش رہتے تھے جن میں شراب نوشی اور حسن فروشی خلاف تحریکیں شامل تھیں کیونکہ یہ رجحانات انگریزوں کی فوجی چھاونی کی وجہ سے پیدا ہونے تھے جس پر سیالکوٹ کے باشندوں کو سخت اعتراضات تھے۔ ظہور چاہتے تھے کہ اُن کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور پھر وہ تعلیم قوم کی خدمت میں صرف ہو۔ اُن کے سب سے بڑے لڑکے ظفر نے مرے کالج جموں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انجمن حمایت اسلام کے اسکولوں میں تعلیم دینے میں عمر صرف کی اور ہیڈ ماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ظہور کی صاحبزادی انوری مراد نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا سیالکوٹ میں مشن گرلز اسکول کی وائس پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔
آخری زمانے میں ظہور کو ایک شدید ذاتی صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے سب سے چھوٹے لڑکے نذید احمد جن کے ابھی لڑکپن کے دن تھے، ٹی بی کے شکار ہو گئے۔ انہیں ایبٹ آباد کے پرفضا مقام پر سینی ٹوریم میں بھیج دیا گیا۔ وہاں اُنہیں ایک تنور والی سے محبت ہو گئی۔ ظہور کسی طرح بھی اس قسم کی شادی پر رضامند نہ ہو سکتے تھے اور کچھ ہی عرصے بعد نذیر نے صرف سترہ برس کی عمر میں ٹی بی کے مرض سے فوت ہو گئے جسے شاید محبت میں ناکامی نے کچھ مزید بگاڑ دیا ہو۔ یہ حقیقی زندگی میں کچھ ویسی درد بھری کہانی تھی جس قسم کی کہانیوں میں نذیر کے اُس بھتیجے نے ہیرو کا کردار ادا کرنا تھا جس کی ابھی پیدایش نہیں ہوئی تھی۔
ظہور کی شخصیت کا صوفیانہ پہلو بیٹے کی تدفین کے موقع پر سامنے آیا۔ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے بار بار خدا کا شکر ادا کر رہے تھے۔ کسی نے تعجب کا اظہار کیا تو ظہور نے کہا، "اگر خدا مجھ سے میرے بیٹے کو اُس کی پیدایش کے سترہ منٹ بعد مجھ سے واپس لے لیتا تو میں کیا کر سکتا تھا؟ یا سترہ مہینے بعد؟ میں خدا کا شکرگزار ہوں کہ اُس نے میرے بچے کو سترہ برس میرے پاس رہنے دیا۔"


یہ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ قریباً اُسی زمانے میں نذیر سے بڑے لڑکے، نثار، سیالکوٹ سے بمبئی چلے گئے۔ بظاہر وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ ظہور نے رفاہی کاموں میں وقت صرف کرنے کی وجہ سے بچوں کے لیے کوئی خاص اثاثہ جمع نہیں کیا تھا۔
نثار ۷ جون ۱۹۱۵ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ سنیما کا عشق انہیں اگر بمبئی پہنچنے سے پہلے ہی نہیں ہو چکا تھا تو وہاں پہنچ کر ضرور ہو گیا۔ برطانوی ہندوستان میں یہ فلم سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا جس کے بعد کلکتہ اور لاہور کا نمبر آتا تھا۔ بمبئی میں نثار نے فلموں کی تقسیم کاری کے ادارے انڈیا فلم بروز میں ملازمت اختیار کر لی۔ جس طرح شیکسپئر کے زمانے کے انگلستان میں ڈرامے کو معیوب سمجھتا جاتا تھا، اسی طرح برطانوی ہند میں مسلمانوں کے متوسط طبقے میں بھی تھیٹر اور سنیما کو معیوب خیال کیا جاتا تھا اور ممکن ہے کہ نثار کے والد اُن کے پیشے کے انتخاب پر خوش نہ ہوئے ہوں۔
بمبئی میں نثار کی ملاقات بیکانیر )راجستھان( کی ایک عیسائی خاتون سے ہوئی جو وہاں نرس کی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ خاتون نے اسلام قبول کر کے شیریں نام اختیار کیا اور نثار کے ساتھ اُن کی شادی ہو گئی۔ اس کے بعد کسی وقت نثار کی پوسٹنگ کراچی ہو گئی اور وہ بیگم کے ساتھ یہاں تشریف لے آئے۔
نثار اور شیریں کی واحد اولاد وحید مراد تھے جو ۲ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پیدایش کے وقت اُن کا نام وحید احمد رکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اُن کے دادا ظہور کا اپنے بھائی ایف ڈی مراد سے کچھ اختلاف ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ظہور نے اپنی اولاد کے ناموں میں لفظ "مراد" شامل کرنا ختم کر دیا تھا۔ اس لیے ان کے بڑے لڑکے ظفر کے سوا باقی بچوں کے ناموں کے آخر میں پیدایش کے وقت مراد کی بجائے احمد کا اضافہ کیا گیا۔ ظہور کی وفات کے بعد اُن کی اولاد نے ایف ڈی مراد کی اولاد کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے اور تب اپنے ناموں میں خاندانی لاحقہ "مراد" بحال کیا۔ اس طرح نثار احمد بھی نثار مراد ہو گئے۔ اُن کے کمسن لڑکے کا نام بھی وحید احمد سے وحید مراد ہو گیا۔
بہرحال اس سے پہلے ظہور الٰہی مراد فوت ہو چکے تھے۔ ان کا انتقال سیالکوٹ میں ۱۰ نومبر ۱۹۳۸ء کو ہوا۔ ممکن ہے مقامی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہو لیکن اُنہی اخبارات میں ایک اور موت کی زیادہ بڑی سرخی بھی لگی ہو گی اور وہ مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک کی تھی جنہوں نے ترکی میں اُسی دن وفات پائی تھی۔ 

1 تبصرے:

Tazeen Hasan نے لکھا ہے کہ

Interesting. Would love to read more.

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔