ہفتہ، 15 اپریل، 2017

مذہب کے نام پر تشدد کے بارے میں تین روّیے



اگست ۱۹۲۴ء میں کابل میں ایک احمدی کو مرتد ہونے کے جرم میں سنگسار کیا گیا۔ یہ فیصلہ افغانستان کی عدالتوں نے دیا تھا۔ دوسرے ممالک میں یہ خبر کچھ اس لیے بھی حیرت سے سنی گئی کہ اُس وقت افغانستان کے حکمراں امان اللہ خاں اپنی روشن خیالی کی وجہ سے مشہور تھے۔ گزشتہ سال انہوں نے مذہبی آزادی کا اعلان بھی کیا تھا۔ 

سنگساری کے واقعے پر تین طرح کے ردِ عمل سامنے آئے۔ مغربی پریس نے شدید احتجاج کیا۔ ہندوستان میں ہندو پریس نے کڑی تنقید کی۔ انہوں نے لکھا کہ امیر امان اللہ نے قدامت پسند علمائے کرام کو خوش کرنے کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ بعض مسلم اخبارات بھی تنقید میں شامل ہوئے اور واقعے کو "افسوسناک" قرار دیا۔ یہ وہ نقطۂ نظر تھا جسے آج کی اصطلاح میں ہم شاید "لبرل" کہیں گے۔

ردِ عمل کی دوسری قسم یہ تھی کہ  روزنامہ "زمیندار" نے سرخی لگائی، "قادیانی ملحد کی سنگساری" اور خبر کچھ اِس انداز میں بیان کی کہ مثلاً "اس سیاہ کار بدکردار کی سنگساری کے موقع پر ملکی اور فوجی اشخاص کا بہت بڑا اجتماع جمع ہو گیا تھا۔" جمعیت العلمأ کی طرف سے افغان حکومت کو تعریفی ٹیلی گرام بھیجا گیا۔ غالباً آج کی زبان میں بہت سے لوگ ردِ عمل کی اِس دوسری قسم کو "مذہبی انتہاپسندی" یا اِسی طرح کا کوئی نام دیں گے۔ 

لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ  کچھ ہی ہفتے بعد کانگریس کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں جمعیت العلمأ کے صدر مولوی کفایت اللہ نے کہا کہ تمام مذاہب کی تعلیمات میں ہم آہنگی ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اسلام میں مرتد کی سزا موت نہیں ہے تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ قانون صرف اسلامی ممالک میں نفاذ کے لیے ہے۔ 

ان دونوں سے مختلف ایک تیسری قسم کا ردِ عمل بھی تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سولہویں اجلاس میں جو اُس برس دسمبر کے آخر میں ہوا، اجلاس کے صدر رضا علی نے کہا، "اگر یہ تاثر عام ہو گیا کہ مسلم حکومتیں شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرنے پر تیار نہیں ہیں تو دنیا میں ایک عظیم اخلاقی قوت کے طور پر اسلام کی حیثیت کمزور ہو جائے گی۔" اِس موقف اور "لبرل ازم" میں فرق یہ ہے کہ یہاں دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی قوت کی فکر مقدم ہے۔ 

یہ واقعات خاصی تفصیل کے ساتھ میری آیندہ تصنیف "اقبال: دورِ عروج" میں شامل ہیں جو عنقریب شائع ہو رہی ہے۔ یہاں ان کا خلاصہ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بھی اِس قسم کے واقعات پر ہمارے یہاں شاید یہی تین طرح کے ردِ عمل سامنے آتے ہیں۔ اِن میں سے پہلے دونوں موقف آج بھی پورے زور و شور سے بیان ہوتے ہیں لیکن تیسرے کو عام طور پر زبان نہیں ملتی۔ حالانکہ یہ سمجھنا شاید غلط نہ ہو گا کہ ایک بہت بڑی تعداد بلکہ شاید اکثریت کا نظریہ آج بھی یہی ہے۔
مکمل تحریر >>