اتوار، 2 اکتوبر، 2016

کربلا - علامہ اقبال کی شاہکار نظم




اسلامی آزادی اور حادثۂ کربلا کے راز کی وضاحت میں

جس کسی نے ھوَالموجود سے پیمانِ وفا باندھا اُس کی گردن ہر معبود سے آزاد ہو گئی۔
مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہر ناممکن، ممکن ہو جاتا ہے۔
عقل سفاک ہے مگر عشق زیادہ سفاک ہے۔ زیادہ پاک، زیادہ چالاک اور زیادہ بیباک ہے۔
عقل اسباب و علل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدانِ عمل کا کھلاڑی ہے۔
عشق قوّتِ بازو سے شکار کرتا ہے جبکہ عقل مکّار ہے اور جال بچھاتی ہے۔
عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق کے لیے عزم و یقیں لازم و ملزوم ہیں۔
عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے اور عشق کی ویرانی میں بھی تعمیر چھپی ہوئی ہے۔
عقل ہوا کی طرح دنیا میں ارزاں ہے جبکہ عشق کمیاب اور بیش قیمت ہے۔ 
عقل 'کیوں' اور 'کتنا' کی بنیاد پر محکم ہوتی ہے جبکہ عشق اس لباس سے بے پروا ہے۔
عقل کہتی ہے کہ اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھو۔ عشق کہتا ہے کہ خود کو امتحان میں ڈالو۔
عقل فائدے نقصان کا حساب کتاب کر کے دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے اور عشق اللہ کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنا حساب کتاب خود کرتا ہے۔
عقل کہتی ہے کہ خوش رہو اور آباد رہو، عشق کہتا ہے، کہ اللہ کی غلامی اختیار کرو اور آزاد ہو جاؤ۔
عشق کے لیے آزادی میں روح کا سکون ہے، اُس کے ناقہ کی ساربان آزادی ہے۔ 
کیا تم نے سنا ہے کہ جنگ میں عشق نے عقل کا مقابلہ کیسے کیا؟
وہ عااشقوں کے امام اور سیدہ فاطمہ کے بیٹے جو حضور صلی اللہ علیہ کے باغ کے آزاد سرو تھے۔
اللہ، والد کا مقام بسم کی "ب" جیسا تھا اور اور بیٹا "ذبحِ عظیم" کا اصل مفہوم بن گیا۔
خیرُ الملل کے اس شہزادے کے لیے آخری نبی کا کاندھا گویا ایک خوبصورت سواری تھی۔ 
اُن کے خون سے عشقِ غیور سرخرو ہوا۔ یہ مصرع اُنہی کے مضمون سے شوخی سے ہمکنار ہوا۔ 
یہ بلندمرتبہ شخصیت ملّت میں یوں ہے جیسے قرآن میں "قل ھواللہ" ہے۔
موسیٰ اور فرعون، شبیر اور یزید۔ زندگی سے یہ دو قوتیں جنم لیتی ہیں۔
شبیری کی قوت سے حق زندہ ہے۔ باطل کا انجام بالآخر حسرت زدہ موت ہے۔
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اُس نے آزادی کے حلق میں زہر اُنڈیل دیا۔
تب یہ جلوہ، جوخیرُالامم کے تمام جلووں میں سرِ فہرست ہے، یوں اُٹھا جیسے قبلے کی جانب سے بارش کا بادل۔
کربلا کی زمین پر برسا، اُس ویرانے میں لالے کے پھول اُگائے اور آگے بڑھ گیا۔
قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی۔ اُس کے لہو نے ایک نیا چمن پیدا کر دیا۔
وہ حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹ گئے اور یوں وہ "لاالٰہ" کی بنیاد بن گئے۔
اگر اُن کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے سے سامانِ سفر کے ساتھ سفر اختیار نہ کرتے۔
دشمن صحرا کی ریت کی طرح لاتعداد تھے اور اُن کے دوست یزداں کے عدد کے لفظ کے برابر تھے، صرف بہتر۔ 
وہ ابراہیم اور اسماعیل کا راز ثابت ہوئے یعنی وہ اجمال تھے اور آپ تفصیل۔ 
اُن کا عزم پہاڑوں کی طرح محکم، پائیدار، آمادۂ عمل اور کامیاب تھا۔
اُن کی تلوار محض دین کی عزت کے لیے تھی اور اُن کا مقصد محض آئینِ شریعت کی حفاظت تھا۔ 
مسلمان اللہ کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا۔ وہ فرعون کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتا۔


 اسرار و رموز۔ ترجمہ مزملہ شفیق
مکمل تحریر >>

جمعہ، 30 ستمبر، 2016

دو قومی نظریہ اور ہم سب



 بعض دوستوں نے اُن سوالوں کے جوابات کی فرمایش کی ہے جو حال ہی میں "قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریہ ۔۔۔ چودہ سوال" کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔ شروع کے چار سوالوں پر قناعت کر رہا ہوں۔ بشرطِ فرصت باقی پھر کبھی سہی۔ 

سوال ۱
اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس کا اب دو قومی نظریہ سے کیا تعلق ہے؟
 ممکنہ جواب: اگر نظریے سے مراد مسلم قومیت کا وہ تصور ہے جو مسلم لیگ کی قراردادوں میں درج ہے اور جس کی مفصل وضاحت لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کی جاتی رہی، تو پاکستانی قوم کا اُس کے ساتھ وہی تعلق ہے جو سوالات پوچھنے والے نے تمہید میں خود ہی بیان کیا ہے یعنی اُس کی بنیاد پر اُس ریاست کے قیام کا مطالبہ پیش کیا گیا جہاں اب یہ قوم رہتی ہے۔

یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ آج اُس کی بجائے کسی اور چیز کو "دوقومی نظریہ" کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں تو "ہم سب" کا فرض ہے کہ لیگ کے اصل نظریے کو مزید واضح کریں تاکہ ذہنی انتشار کم ہو اور پھر متفقہ طور پر جو راہ بھی پسندیدہ ٹھہرے وہی اختیار کر لی جائے۔  

سوال ۲
 برطانوی حکمرانوں، آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس سمیت تمام سیاسی فریقوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ پاکستان ایک قوم کے طور پر وجود میں آیا۔ اب یہاں دو قومی نظریے پر اصرار کا مطلب کیا ہے؟
ممکنہ جواب: یہ بات بحث طلب ہے کہ تمام سیاسی فریقوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ۳ جون کے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے باوجود قرارداد منظور کی جس میں دو قومی نظریے کو باطل قرار دیا گیا اور تقسیم کو بھی ایک طرح سے عارضی قرار دیتے ہوئے اس کے بعض پہلوؤں کی نفی کی گئی۔ ممکن ہے کہ اس طرح کانگریس نے اپنی دانست میں "اتفاق کر لیا" ہو مگر لیگ کے نقطۂ نظر سے تو کانگریس حسبِ سابق اُس اصول کے انکار پر مصر تھی جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آ رہا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو عارضی ریاست بھی قرار دے رہی تھی۔

 اگر یہ سوال اس وجہ سے پوچھا جا رہا ہے کہ "پاکستان ایک قوم کے طور پر وجود میں آیا" جبکہ "دو قومی نظریہ" کی اصطلاح ایک سے زیادہ قوموں کی طرف اشارہ کرتی ہے تو ہمیں مسلمانوں کے اُس سیاسی و قانونی نظریے کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو لیگ کے لٹریچر میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ لیگ کی دانست میں اُس نظریے میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ اُس کی بنیاد پر مختلف مذاہب کے لوگ ایک ریاست کے ایسے شہری بن جائیں کہ مذہب و عقیدہ بھی سیاسی وحدت کی راہ میں حائل نہ ہو۔

ممکن ہے کوئی پوچھے کہ مسلم قوم کے دامن میں ایسی چیز تھی تو لیگ نے متحدہ ہندوستان ہی میں یہ کام کیوں نہ کر دکھایا اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیوں کیا۔ لیگ نے اپریل ۱۹۴۶ء میں جو قرارداد منظور کی جس میں پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا، اُس میں واضح طور پر درج ہے کہ علیحدہ ریاست کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ ہندو اکثریت نے جو نظریات اپنا رکھے ہیں وہ ہندوستان میں ایک متحدہ قومیت کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں جبکہ مسلم قوم اپنے پاس جو نظریات رکھتی ہے اُن کی بنیاد پر متحدہ قومیت تشکیل دی جا سکتی ہے۔

اگر کوئی اسے محض جذبات پر مبنی ایک دعویٰ سمجھتا ہے تو وہ پاکستان کے آنجہانی چیف جسٹس آر اے کارنیلئیس کی تحریروں کی طرف رجوع کرے۔ ایک رومن کیتھولک عیسائی کی طرف سے ٹھنڈی ٹھار قانونی زبان میں پوری وضاحت حاضر ہے۔

سوال۳
پاکستان کی ریاست بین الاقوامی نقشے پر ایک آزاد ریاست ہے یا اس کا ہندوستان کی ریاست کے ساتھ جغرافیائی ہمسائیگی کے علاوہ بھی کوئی آئینی تعلق ہے؟ اگر ایسا کوئی تعلق نہیں تو پاکستان کے باشندوں سے اس دو قومی نظریے پر اصرار کیوں کیا جائے جو اب ماضی کے ایک سیاسی موقف کی حیثیت رکھتا ہے؟
ممکنہ جواب: مسلم لیگ نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد مسلم قومیت کا تصور "ماضی کے ایک سیاسی موقف" کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ دلیل کہ اب پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اس لیے دوقومی نظریہ ماضی کا سیاسی موقف بن چکا ہے، صرف اُس صورت میں پیش کی جا سکتی ہے جب "دو قومی نظریہ" کے منفی معانی سامنے رکھے جائیں جو عام طور پر کانگریس اور دوسرے معترضین کی طرف سے پروپیگنڈا کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ لیگ کے نزدیک تو مسلم قومیت کا مطلب ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے پاس سیاست و قانون کا ایک مخصوص نظریہ موجود ہے۔ پھر ریاست کے وجود میں آنے سے اُس نظریے کی حیثیت "ماضی کے ایک سیاسی موقف" کی کیسے ہو گئی؟ یہ تو بالکل یوں ہی ہے جیسے رُوس میں اشتراکی انقلاب کے بعد کوئی کہتا کہ انقلاب آ جانے کی وجہ سے اشتراکی نظریے کی حیثیت "ماضی کے ایک سیاسی موقف" کے علاوہ کچھ نہیں رہی۔

سوال ۴
۔۱۹۷۱ میں پاکستان سے بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔ ۱۹۴۷ کے متحدہ ہندوستان میں اب تین خود مختار اور آزاد ریاستیں موجود ہیں۔ کیا پاکستان بنگلہ دیش پر کوئی دعویٰ رکھتا ہے؟ کیا ۱۹۴۷ کے تناظر میں دو قومی نظریہ اب تین قومی نظریہ بن چکا ہے؟
ممکنہ جواب: یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے۔ غور کیجیے تو اِس سوال کے پیچھے یہ خیال موجود ہے کہ کسی ریاست میں رہنے والے تمام لوگ لازماً ایک ہی قوم ہوتے ہیں جبکہ دوسری ریاست میں رہنے والے لوگ لازماً مختلف قوم ہوتے ہیں۔ لیکن آپ "دوقومی نظریہ" کا جو بھی مفہوم لیجیے، وہ بہرحال اِس اُصول کی نفی پر ہی اُستوار ہو گا کہ ایک ریاست کے باشندے لازماً ایک قوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سوال کا الجبرے والا جواب تو یہی بنتا ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی آمد سے پہلے ایک قوم تھے تو اُن کے جانے کے بعد بھی ہیں کیونکہ انگریزوں کی آمد سے پہلے بھی خطے میں متعدد ریاستیں ہوتی تھیں اور لیگ کا دعویٰ تھا کہ ان مختلف ریاستوں میں بٹے ہونے کے باوجود یہ سب مسلمان ہمیشہ ایک قوم رہے۔ آپ چاہیں تو لیگ کا دعویٰ مسترد کر سکتے ہیں جیسا کہ کانگریس نے کیا۔ لیکن اپنے موقف کو لیگ کے سر نہیں تھوپ سکتے۔

لیگ کے موقف کی روشنی میں وہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا جسے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلمان تب ایک قوم تھے جب بابر نے ابراہیم لودھی سے اور ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے جنگ کی تھی، اگر وہ تب ایک قوم تھے جب اورنگزیب عالمگیر دکن کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف جنگ کر رہے تھے یا جب نظام دکن نے سلطان ٹیپو کے خلاف جنگ لڑی تھی تو پھر ہندوستان اور پاکستان میں بٹ جانے کے بعد یا بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے سبب یہ حقیقت کیسے بدل جائے گی؟ آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم قومیت اُس وقت بھی وجود نہیں رکھتی تھی جب لیگ اس پر اصرار کر رہی تھی لیکن پھر ۱۹۴۷ اور ۱۹۷۱ کے حوالوں کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ایسے حوالے تو ماضی کے زمانے میں اور بھی زیادہ  دستیاب ہیں۔

یہ مختصر جواب ہے۔ مفصل جواب لیگ کی قراردادوں اور لٹریچر میں بلکہ خود کانگریس کے بعض خطباتِ صدارت میں بھی موجود ہے۔ میری آیندہ تصنیف "اقبال: دورِ عروج" میں اس قسم کے بہت سے بنیادی ماخذ پیش کیے جا رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ غور و فکر کی مزید راہیں کھلیں گی۔
مکمل تحریر >>

پیر، 15 اگست، 2016

اے مردِ مجاہد جاگ ذرا



ہم سب جانتے ہیں کہ "اے مردِ مجاہد جاگ ذرا" پاکستانی فوج کا سرکاری بینڈ ہے لیکن شاید ہم نے کبھی غور نہ کیا ہو کہ اس ترانے کا علامہ اقبال کی فکر کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے۔  بلکہ اُن کے خواب کو حقیقت بنانے میں شاید یہ ترانہ ایک عملی اقدام کی حیثیت رکھتا ہے۔

 ایک ایسا نغمہ تخلیق کرنا جو مسلسل کئی نسلوں کے ذہنوں کو متاثر کرتا رہے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ نغمہ فلم "چنگیز خان" کا ہے جو ۱۹۵۸ء میں ریلیز ہوئی۔ میں نے یہ فلم نہیں دیکھی کیونکہ نایاب ہے۔ البتہ سنا ہے کہ نسیم حجازی کے ناول "آخری چٹان" سے ماخوذ تھی۔ ممکن ہے اس لیے بھی بنائی گئی ہو کہ صرف ایک برس پہلے بھارت میں بھی فلم "چنگیز خان" بن چکی تھی۔ "اے مردِ مجاہد" والے نغمے کے شاعر طفیل ہوشیارپوری تھے۔ موسیقار رشید عطرے تھے۔ گلوکار عنایت حسین بھٹی تھے۔ ہدایتکار رفیق سرحدی تھے۔ چند برس بعد ہی پاک فوج نے یہ ترانہ پریڈ کے لیے پسند کر لیا۔ غالباً گلوکار کو فوج میں اعزازی عہدہ بھی دیا گیا۔ 

قریباً ساٹھ برس ہونے کو آئے ہیں لیکن آج بھی یہ نغمہ سن کر لوگ صرف قومی فریضہ ہی پورا نہیں کرتے بلکہ محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ اس قسم کے شاہکار کیوں نہ اُن معجزاتِ فن کے زمرے میں رکھے جائیں جن کے بارے میں علامہ نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ انہیں تخلیق کرنے والے اپنے عشق کی وجہ سے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اُن کا وجدان اُنہیں کسی اور دنیا سے جوڑ دیتا ہے۔ 

نغمے کی ابتدا ہوتے ہی پہلا معجزہ یہ سامنے آتا ہے کہ تیرھویں صدی کی وہ دنیا جس کی کہانی فلم میں پیش کی جا رہی ہے، شاعر کے زمانے کے پاکستان کی ایک علامت بن جاتی ہے۔ فلم کی ریلیز سے صرف چار برس پہلے ہمارے قومی ترانے میں حفیظ جالندھری "پرچمِ ستارہ و ہلال" کو "سایۂ خدائے ذوالجلال" کہہ چکے تھے۔ طفیل کے نغمے کے ابتدائی مصرعے بھی توحید کے پرچم کو "اللہ کی رحمت کا سایہ" قرار دے رہے ہیں لیکن یہ پرچم موجودہ پاکستان کا نہیں بلکہ تیرھویں صدی میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرنے والےہمارے بزرگوں کا پرچم ہے۔ ماضی اور حال کے درمیان یہ تسلسل قائم کر کے طفیل نے حفیظ کی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ہمارا قومی پرچم صرف "شانِ حال" نہیں بلکہ "ترجمانِ ماضی" بھی ہے۔ 

پھر طفیل نے یہ بات اتنے ڈرامائی انداز میں کہی ہے کہ فوراً ہی ہماری توجہ حاصل کر لیتے ہیں:

اللہ کی رحمت کا سایہ
 توحید کا پرچم لہرایا
 اے مردِ مجاہد جاگ ذرا 
اب وقتِ شہادت ہے آیا 

میرے خیال میں ٹیپ کے مصرعوں یعنی "اے مردِ مجاہد جاگ ذرا" کا ماخذ علامہ اقبال کی نظم "جوابِ شکوہ" ہے۔ یہ قدرتی بات تھی کہ تاتاریوں کی یلغار کی کہانی کے لیے نغمات لکھتے ہوئے طفیل کا ذہن اُس نظم کی طرف جاتا جس میں کہا گیا تھا، "ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے"۔ علامہ نے اُس سے اگلے ہی بند میں خدا کی زبانی جنگِ بلقان کے بارے میں، جو نظم کے زمانے میں جاری تھی، کہلوایا کہ وہ "غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا"۔ یہی وہ بات ہے جو طفیل نے آسان زبان میں یوں کہی ہے کہ "اے مردِ مجاہد جاگ ذرا"۔ جس طرح طفیل نے ڈرامائی انداز میں نغمے کا آغاز کیا ہے یعنی "توحید کا پرچم لہرایا"، بالکل اُسی طرح "جوابِ شکوہ" میں جنگِ بلقان والا بند بھی ڈرامائی انداز میں شروع ہوتا ہے، "ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا"۔ جنگِ بلقان کے بارے میں اہم بات "جوابِ شکوہ" میں یہ کہی گئی ہے کہ "امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا"۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ طفیل نے ایثار اور خودداری کے امتحاں ہی کو نغمے کا مرکزی خیال بنایا ہے۔پہلا بند ملاحظہ فرمائیے: 

سر رکھ کے ہتھیلی پر آنا 
ہے ظلم سے تجھ کو ٹکرانا
 ایمان کا ہے رکھوالا تُو 
اسلام کا ہے متوالا تُو 
ایمان ہے تیرا سرمایہ 

اِس بند میں ایثار اور قربانی کا تاثر یوں بھی بڑھ جاتا ہے کہ جس چیز سے ٹکرانے کی دعوت دی جا رہی ہے وہ "ظلم" ہے۔ اس طرح اسلام کسی دوسرے مذہب کے رقیب کے طور پر نہیں بلکہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والی ایک اخلاقی قوت کے طور پر متعارف ہوتا ہے۔ 

نغمے کے اگلے بند میں "جوابِ شکوہ" سے تعلق بالکل کھل کر سامنے آ جاتا ہے بلکہ اسی بند کے دو مصرعوں کی وجہ سے میں نے پہلی دفعہ اس نغمے اور "جوابِ شکوہ" کے باہمی تعلق کو محسوس کیا تھا۔ "جوابِ شکوہ" کے آخری بند میں جو بیحد مشہور ہے، خدا کی زبانی مسلمانوں سے کہا گیا ہے، "مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری" اور "تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری"۔ نغمے کے دوسرے بند میں طفیل کہتے ہیں، "تدبیر تری، تقدیر تری۔ اب دنیا ہے جاگیر تری"۔ یہ تعلق اتنا واضح ہے کہ اس کے بعد کسی شبہے کی گنجایش نہیں رہتی۔ "جوابِ شکوہ" کے اسی بند میں ہمیں اُس "تکبیر" کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو طفیل کے پورے نغمے میں گونج رہی ہے۔ اب "جوابِ شکوہ" کا مکمل بند ملاحظہ کیجیے: 

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری 
مرے درویش، خلافت ہے جہانگیر تری 
ماسوااللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
 تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری 
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں 

اِس روشنی میں طفیل کے نغمے کے دوسرے بند پر غور کیجیے:

 تُو ہاتھ میں اب تلوار اُٹھا 
رکھ سر پہ کفن میدان میں آ 
تدبیر تری، تقدیر تری 
اب دنیا ہے جاگیر تری 
تاریخ نے ہے یہ بتلایا 

تیسرے بند میں "باطل" اور "کفر" کا تذکرہ ہے لیکن یہاں یہ چیزیں کسی دوسرے مذہب کے ساتھ نتھی نہیں کی گئیں بلکہ اُن خرابیوں کی طرف اشارہ ہے جنہیں مٹانا کسی بھی انسان کا فرض ہونا چاہیے۔ اگر مسلمان یہ فرض ادا کریں تو وہ صرف اسلام ہی کی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی خدمت کریں گے: 

باطل کی نظر للچائی ہے 
انسان پہ تنگ خدائی ہے 
سر کفر نے دیکھ اُبھارا ہے 
اسلام کو پھر للکارا ہے 
تقدیر نے یہ دن دکھلایا 

علامہ کے نزدیک اسلامی تصوّرِ حیات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل فطرت اُس کے ارادے میں مضمر ہے نہ کہ عقل یا شعور میں اور یہ فطرت بنیادی طور پر نیک ہے۔ انسان فطرتاً برا نہیں، گناہگار نہیں بلکہ اُس کی فطرت میں برائی کی آمیزش بھی نہیں ہے۔ ہر برائی بنیادی طور پر خوف سے جنم لیتی ہے۔ اس کاسرچشمہ انسان کے باطن میں نہیں بلکہ باہر کی دنیا میں ہے۔ خوف سے نجات حاصل کرنا ہی درحقیقت نجات ہے۔ 


قرآن شریف میں جہاد کا تصوّر بھی اِسی کے مطابق ہے۔ جس آیت کو پورے تصوّرِ جہاد کی جامع تلخیص سمجھا گیا ہے اُس کا مفہوم بمع حوالے کے آپ طفیل کے نغمے کے چوتھے بند میں ملاحظہ کریں گے۔درحقیقت علامہ کی دونوں نظمیں "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" بھی اسی آیت کی ایک مفصل شرح ہیں۔ "شکوہ" میں بڑی تفصیل کے ساتھ یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ کیا نئے زمانے میں اس آیت کا اطلاق نہیں ہوگا؟ "جوابِ شکوہ" میں اتنی ہی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ دورِ جدید میں اس آیت کے کون سے مضمرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ سورۂ توبہ کی ایک سو گیارہویں آیت ہے جس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ "اللہ نے مومنوں سے جنت کے بدلے میں اُن کے جان اور مال خرید لیے ہیں۔ وہ اُس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، جان لیتے ہیں اور دے دیتے ہیں۔ یہ ایک وعدہ ہے جو اُس نے تورات، انجیل اور قرآن کے ذریعے اپنے اوپر عائد کیا ہے اور بھلا اللہ سے زیادہ کسے اپنے وعدے کا پاس ہو سکتا ہے؟ چنانچہ تم اُس سودے پر خوش رہو جو تم نے کیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔" 

اِس آیت کی روشنی میں نغمے کا چوتھا بند ملاحظہ فرمائیے: 

جاں جاتی ہے بیشک جائے 
پرچم نہ ترا جھکنے پائے 
غازی کو موت سے کیا ڈر ہے 
جاں دینا جہادِ اکبر ہے 
قرآن نے ہے یہ فرمایا 

اگلے بند میں جو پانچواں اور آخری بند ہے، ہمیں "کی محمد سے وفا تُو نے" والے خیال کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی "جوابِ شکوہ" میں یہ بھی کہا گیا تھا، "وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے۔ نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔" اس کی بازگشت بھی یہاں واضح طور پر سنی جا سکتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ "نورِ توحید کے اتمام" سے یہاں "پیغامِ اخوت" مراد لی گئی ہے اور یہی مفہوم علامہ نے بھی پیش کیا تھا۔ بند ملاحظہ ہو: 

محبوبِ خدا کے پروانے 
دہرائیں اجداد کے افسانے 
پیغامِ اخوّت دینا ہے 
یہ کام تجھی سے لینا ہے 
پھر کفر مقابل ہے آیا 

اس طرح طفیل کے شاعرانہ معجزے کی بدولت چار دنیائیں ایک ہو گئی ہیں۔ پہلی دُنیا تیرھویں صدی کی ہے جو فلم کی کہانی میں پیش کی جا رہی ہے۔ دوسری دُنیا اقبال کے تخیل کی ہے جہاں سے شاعر نے اپنے استعارے لیے ہیں۔ تیسری دنیا ۱۹۵۰ء کی دہائی کا پاکستان ہے جہاں شاعر بھی رہتا تھا اور اُس کے فلم بین بھی، اور جہاں حفیظ جالندھری نے اپنا قومی ترانہ بھی پیش کیا۔ چوتھی دنیا نغمہ سننے والوں کے تخیل میں جنم لیتی ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ 

اس نغمے کی ہمیشہ کی زندگی کا راز شاید یہی ہے کہ یہ ہمیں اپنے باطن میں اُس نئی دنیا کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔ علامہ نے "جاویدنامہ" میں سید جمال الدین افغانی سے کہلوایا تھا کہ قرآن شریف کے باطن میں ان گنت دنیائیں موجود ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہیں۔ اُن میں سے کوئی ایک تمہارے زمانے کے لیے کافی ہے اور وہ بتدریج اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہے۔ اُسے دریافت کرو اور اُس کی تعمیر میں حصہ لو۔ طفیل کا نغمہ اس دریافت اور تخلیق کے عمل میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اس لیے یہ اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ہم میں وہ اخلاقی قوت باقی ہے جو ہمیں اپنے تخیل میں یہ دنیا تعمیر کرنے کے لیے اُکساتی ہے۔ 



مکمل تحریر >>

جمعرات، 16 جون، 2016

ریاست کا حق


شاید قدرت کی ستم ظریفی اسے ہی کہتے ہیں کہ  عین اُس وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ اُنہیں امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف قانون سازی کی اجازت مل جائے، ہمارے میڈیا میں یہ غل مچا ہے کہ  پاکستان میں بھی احمدیوں کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ اگر کسی کے خیال میں معاشرے کے کسی طبقے کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو ضرور آواز اُٹھانی چاہیے  لیکن افسوس کہ فی الحال یہ  آواز جس طرح اُٹھی ہے اُس میں ایک بنیادی غلطی ہے۔ 

"کیا ریاست کے پاس یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے؟" یہ سوال کچھ ایسے انداز میں پوچھا جا رہا ہے جیسے ریاست کے اس حق سے انکار کرتے ہی آسمان سے پھول برسنے لگیں گے۔  حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 



تاریخ نے اس  سوال کے تین  جوابات ہمارے سامنے رکھے  ہیں۔ سب سے پہلے علامہ اقبال نے جنوری ۱۹۳۶ء میں اپنے مقالے "اسلام اور احمدیت" میں لکھا  کہ  ایک مسلم اکثریتی ریاست حق رکھتی ہے کہ وہ کسی گروہ کو غیرمسلم قرار دے لیکن یہ اقدام کرتے ہوئے ریاست "خالص مذہبی نقطۂ نگاہ کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کو پیشِ نظر رکھے گی۔" مطلب یہ کہ ریاست کے پاس یہ حق ہے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے لیکن اس کا فیصلہ بھی ریاست ہی کرے گی کہ یہ حق کب استعمال کرنا ہے۔ اس معاملے میں ریاست علمائے کرام سے مشورہ ضرور کر سکتی ہے لیکن اُن کی رائے کی پابند نہیں ہے۔ مسلم  قیادت ۱۹۵۴ء تک اسی موقف پر قائم رہی۔ 

۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں ایک اور موقف پیش کیا گیا۔ مجلسِ احرار، جماعتِ اسلامی اور بعض دوسری جماعتوں کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے اور اعلیٰ ملازمتوں سے بے دخل کیا جائے۔ یہ مطالبہ منظور کروانے کے لیے "سول نافرمانی" کی تحریک چلائی گئی۔ اس طرح یہ موقف سامنے آیا کہ ریاست اس معاملے میں علمائے کرام کی رائے کی پابند ہے۔ یہ علامہ اقبال اور پاکستان بنانے والوں کے موقف سے مختلف تھا۔ 

۱۹۵۴ء تک پاکستان میں سیکولر ڈکٹیٹرشپ قائم ہو چکی تھی۔ اُس برس حکومت نے "منیر رپورٹ" شائع کی جس میں کہا گیا  کہ ریاست کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے۔  ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۵۴ء میں پاکستانی حکومت نے  یہ نظریہ اپنا یا کیونکہآیندہ بیس برس میں جتنے بھی حکمراں آئے وہ یہی نظریہ  رکھتے تھے، یعنی اسکندر مرزا، ایوب خاں، یحییٰ خاں اور ذوالفقار علی بھٹو۔

یہ نظریہ ریاست کو اُس وقت ترک کرنا پڑا جب ۱۹۷۴ء میں جماعتِ اسلامی اور مجلسِ احرار کی طرف سے ایک دفعہ پھر یہ مطالبہ ہوا کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ بھٹو صاحب کی پارلیمنٹ نے اس معاملے کا فیصلہ علمائے کرام کی آرأ کے مطابق کر کے عملاً وہ نظریہ اپنا لیا جسے ۱۹۵۳ء میں مجلسِ احرار وغیرہ نے پیش کیا تھا۔ 



تاریخ اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی کہ مذہبی نقطۂ نظر سے کون سا نظریہ درست ہے۔ اس کا فیصلہ صرف مذہب ہی کر سکتا ہے۔ تاریخ صرف اتنا بتا سکتی ہے کہ  کوئی  نظریہ اختیار کرنے کا نتیجہ کیا نکلا۔

تجربے سے ثابت ہے  کہ جب پہلا نظریہ اختیار کیا گیا یعنی ریاست مکمل اختیار رکھتی ہے کہ کسی گروہ کو غیرمسلم قرار دے یا نہ دے، تو نتیجے میں ریاست اتنی طاقتور ہو گَئی کہ  ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے مجلسِ احرار اور جماعتِ اسلامی وغیرہ کے مطالبات رد کر دئیے۔ اسمبلی نے بھی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ نہ وہ اسمبلی سیکولر تھی نہ ہی خواجہ صاحب کوئی سیکولر شخصیت تھے۔ اسمبلی وہی تھی جس نے قراردادِ مقاصد منظور کی تھی۔ خواجہ صاحب باعمل مسلمان تھے جو ختمِ نبوت پر کامل یقین رکھتے تھے اور علمائے کرام کی بڑی عزت کرتے تھے۔ لیکن ایک اسلامی ریاست کے بارے میں اُن کا نظریہ وہی تھا جو یہاں بیان ہوا ہے۔  مجلسِ احرار وغیرہ کے مطالبات بھی انہوں نے اسی بنیاد پر رد کیے تھے۔ اس سے قطعِ نظر کہ اُن کا فیصلہ درست تھا یا غلط، بہرحال یہ ثابت ہے کہ یہ  نظریہ حکومت کو اتنی قوت دیتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور اُسے منوا سکے۔ 

جہاں تک دوسرے نظریے کا تعلق ہے یعنی ریاست کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے، تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہ ناقابلِ عمل ہے۔  جب ۱۹۵۴ء میں یہ نظریہ اختیار کیا گیا تو  بیس برس بعد حکومت کو اُنہی تنظیموں کے  سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے جنہیں  پہلے شکست دی گئی تھی۔ حالانکہ بھٹو صاحب، خواجہ صاحب سے زیادہ قوت رکھتے تھے۔ ۱۹۷۴ء میں قوم میں مذہبی جوش بھی ۱۹۵۲ء سے کم تھا۔ لہٰذا ہمِں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ۱۹۷۴ء میں بھٹو صاحب کی "کمزوری" کی اصل وجہ یہی تھی کہ اُن کے پیشرو اُنہیں ایک ناقابلِ عمل نظریہ سونپ گئے تھے۔

آج سیکولر ذہن رکھنے والے  کہتے ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ ہونے والی "ناانصافی" کا حل یہ ہے کہ وہی نظریہ دوبارہ نافذ کر دیا جائے  لیکن وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیتے کہ جسے  وہ  "نا انصافی" کہہ رہے  ہیں یہ  تو شروع ہی اُس وقت ہوئی جب ریاست نے یہ نظریہ قبول کیا۔ فرض کیجیے کہ آج پھر ہم یہ نظریہ قبول کر لیں تو کیا ضمانت ہے کہ بیس برس بعد دوبارہ اسے ترک کر کے مزید "ناانصافی"  نہیں کرنی پڑے گی؟ ہمیں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ نے اس نظریے کو باطل قرار دے دیا ہے۔ اس نظریے کو دوبارہ پیش کرنے سے صرف مزید کنفیوژن پھیلے گا۔ اگر فی الحقیقت معاشرے میں کسی ایسی "اصلاح" کی خواہش ہے جسے سب قبول کر  سکیں تو سب سے پہلے اس نظریے کو ترک کرنا پڑے گا۔ 

اس طرح ہمارے سامنے صرف دو نظریے رہ جاتے ہیں۔ ایک وہ نظریہ جو فی الحال رائج ہے یعنی ریاست اس معاملے میں علمائے کرام کی مرضی کے تابع ہے۔ اگر سیکولر ذہن رکھنے والوں کو یہ نظریہ پسند نہیں ہے تو سب سے پہلے انہیں حقیقت پسندی کے ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ  نظریہ پاکستان کے ساتھ پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ  صرف اور صرف اس لیے رائج ہوا کہ ہمارے سیکولر طبقے نے ایک باطل نظریہ رائج کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اُس کا ردِ عمل ہے۔ 

اس نظریے کے متبادل کے طور پر تاریخ نے صرف ایک اور نظریہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور وہ یہ کہ ریاست اس اختیار کے استعمال میں خودمختار ہے۔ پاکستان اسی نظریے کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔  آیندہ یہ نظریہ دوبارہ رائج ہو سکتا ہے یا نہیں، اِس کا فیصلہ صرف آنے والا وقت ہی کرے گا۔لیکن فی الحال ہمیں صرف یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی تیسرا متبادل موجود نہیں ہے۔ 



اس کے ساتھ ہی یہ تلخ حقیقت بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے  کہ ماضی میں جب کبھی احمدیت کے بارے میں سوال اُٹھا ہے، کسی نہ کسی تیسری طاقت نے موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ۱۹۳۵ء میں جب برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے، پنڈت جواہرلال نہرو نے فوراً ہی مضامین کا ایک سلسلہ شائع کر دیا جس میں تان اس بات پر ٹوٹی کہ اسماعیلی فرقہ بھی احمدیوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی  کہ آغا خاں، نہرو کے سیاسی حریف تھے۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے اپنا شہرۂ آفاق مقالہ "اسلام اور احمدیت" شائع کر کے علاوہ دوسری باتوں کے یہ بھی واضح کیا کہ اسماعیلی بالکل اسلام کے دائرے کے اندر ہیں۔

اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا مطالبہ ہوا اور نوبت خون خرابے تک پہنچی تو گورنر جنرل غلام محمد نےوزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اُنہیں برطرف کر کے امریکہ کے حمایتی  محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کر لیا جہاں سے درحقیقت ہماری اُس غلامی کا آغاز ہوتا ہے جس سے ہم ابھی تک شاید پوری طرح نکل نہیں سکے ہیں۔
 ۱۹۷۴ء میں جب ایک دفعہ پھر یہ مطالبہ سامنے آیا تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے وہ قانون منظور کیا جس کے مطابق احمدی غیرمسلم قرار پائے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ اعظم تھے جن کے حامی خود کہتے ہیں کہ اس میں بھٹو صاحب کی نیت کو دخل نہ تھا بلکہ اُنہوں نے اپنا شخصی اقتدار مضبوط کرنے کی خاطر یہ قدم اٹھایا تھا۔
اب جبکہ احمدی مسئلہ ہمارے یہاں دوبارہ اُچھالا گیا ہے، امریکہ میں الیکشن کا بازار گرم ہے۔ مسلمانوں کے خلاف قوانین وضع کرنا اِس دفعہ ایک گروہ کا اہم ایجنڈا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے ناخوشگوار واقعے کو شہرت دے کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔ ایک امریکی نائٹ کلب میں مبینہ قتلِ عام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کو بیدردی کے ساتھ قتل بھی کیا جا رہا ہے اور یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ  کوئی اُن کے ساتھ ہمدردی  محسوس نہ کر سکے۔  لیکن اس میں دوسروں کی بدنیتی سے کہیں زیادہ ہماری سیاسی ناپختگی کو دخل ہے   کیونکہ اکثر مسلمان قوموں کی آزادی کو بمشکل ساٹھ ستر برس ہوئے ہیں۔ ہماری ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اس بات  کی ہے کہ ہم اپنے سابقہ تجربات سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت پیدا کریں۔ یہ صلاحیت کسی اسکول، کالج اور دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں بھی نہیں مل سکتی۔ یہ ہمیں خود ہی پیدا کرنی ہو گی۔
مکمل تحریر >>