ہفتہ، 29 اگست، 2015

بعض شکایتوں کے جواب میں

بھارتی رسالے "عالمی اُردو ادب" نے میری ایک تحریر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اندھی عقیدت کا نتیجہ ہے اور اُس میں کوئی منطق نہیں ہے۔
شمارے کا عنوان ہے "مقبولِ عام ادب نمبر"۔ پیش لفظ میں ص۹ پر مدیر نندکشور وکرم لکھتے ہیں:
اس میں شک نہیں کہ ابن صفی جاسوسی ناول نگاروں میں سرِ فہرست ہیں اور اِس میدان میں اُن کا مرتبہ بہت بلند ہے اور اُن کی تحریریں قاری پر گہرا تاثر چھوڑتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی تعریف کرتے ہوئے اُن کے معتقد یا قارئین مبالغہ آمیزی سے کام لیں اور یہاں تک کہہ دیا جائے کہ "اصلاحی ادب کے سب سے بڑے مبلغ کے طور پر سر سید احمد خاں، محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کی فکری جانشینی کے مستحق صرف وہی تھے" یا یہ کہ "ابن صفی سے بہتر نثر شاید )مرزا غالب اور محمد حسین آزاد کو چھوڑ کر( اُردو میں کسی اور نے نہیں لکھی " لہٰذا "اگر اقبال کی شاعری کو الہامی شاعری کہا جاتا ہے تو ابن صفی کی نثر کو اِلہامی نثر کہا جا سکتا ہے۔" یہ درست نہیں ہے۔ غالباً یہ ابن صفی سے شدید کورانہ  عقیدت و محبت کا اظہار ہی کہا جا سکتا ہے۔ ویسےاس میں کوئی منطق بھی نہیں۔
یہاں وکرم صاحب نے قوسین میں جو جملے درج کیے ہیں وہ  میری کتاب "سائیکومینشن" کی "پہلی بات" سے لیے گئے ہیں۔
غالباً وِکرم صاحب کو تردید کرنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ اُنہوں نے اِسی شمارے میں  ہندوستان کے ایک اور   مصنف  محمد عارف اقبال کی ایک کتاب سے اُن کا مضمون "ابن صفی کا ادبی نصبُ العین" شامل کیا ہے۔ عارف صاحب نے میری بعض باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے سائیکومینشن کا ایک اقتباس نقل کیا جس میں یہ جملے آتے ہیں۔ وِکرم صاحب کو مضمون نگار سے اتفاق نہیں تھا اس لیے انہوں نے پیش لفظ میں اپنا اختلاف ظاہر کرنے کی ضرورت سمجھی ہو گی لیکن انداز کچھ غیرمناسب ہے۔ 
بہتر ہوتا  اگر وِکرم صاحب صرف یہ کہہ کر گزر جاتے کہ اُنہیں اِن آراء سے اتفاق نہیں ہے۔ اگر تردید کرنا چاہتے تھے تو پھر دلیل بھی پیش کرتے۔ اِن دونوں صورتوں کی بجائے اُنہوں نے میری بات کو مبالغہ آمیز، اندھی عقیدت پر مبنی اور منطق سے خالی قرار دیا اور کوئی دلیل بھی نہیں پیش کی۔
مجھے تعجب ہے۔ عارف صاحب نےاپنے مضمون میں میرا تعارف " پاکستان کے ایک محقق، تاریخ داں اور ماہر اقبالیات" کے طور پر کروایا ہے۔ میں نے علامہ اقبال کے نظریہء ادب سے ابن صفی کا جو تعلق بیان کیا ہے،  اُس کی مکمل وضاحت کرنے کے بعد عارف صاحب نے لکھا ہے، "خرم علی شفیق نے ابن صفی کے تمام ناولوں کا بڑی گہرائی سے تاریخی جائزہ لیا ہے۔ اُنہوں نے نثری ادب میں ابن صفی کی اہم خصوصیات کی اِس طرح درجہ بندی کی ہے" اِس کے بعد میرا وہ طویل اقتباس نقل کیا ہے جس میں یہ تین جملے آتے ہیں جس پر وِکرم صاحب کو اعتراض ہوا۔
کاش وِکرم صاحب غور فرماتے کہ میں اقبالیات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہوں۔ اگر میں ابن صفی کو علامہ اقبال کی روایت سے منسلک کروں تو وہ اندھی عقیدت نہیں کہلائے گی بلکہ ایک ماہر کی ذمہ دارانہ رائے ہے۔ اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اختلاف کی بنیاد کسی دلیل پر ہونی چاہیے۔ مثلاً وِکرم صاحب بتا سکتے تھے کہ کیوں اُن کے خیال میں ابنِ صفی اصلاحی ادب کے مبلغ کے طور پر سرسید، جوہر اور اقبال کے جانشین کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ 
اس  کی بجائے محض الزامات کی بوچھاڑ کر دینا کہ یہ مبالغہ ہے، اندھی عقیدت ہے، اس میں کوئی منطق نہیں، یہ بات ایک سنجیدہ اور برزگ ادیب  کے شایانِ شان نہیں ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ وِکرم صاحب اس پر غور کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ میں نے ابن صفی پر جو کتابیں لکھی ہیں وہ اقبالیات پر میری تحقیق کا تسلسل ہیں۔ علامہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ادب کے بارے میں ایک واضح نظریہ بھی رکھتے تھے۔ مجھ میں اور بعض دوسرے ماہرینِ اقبالیات میں یہ فرق ہے کہ دوسروں نے علامہ کی شاعری کو عام طور پر صرف مروجہ نظریات کی روشنی میں دیکھا ہے اور علامہ کے اپنے نظریہء ادب کو مسترد کر دیا ہے۔ میں نے علامہ کے نظریہء ادب کو قبول کر کے اُس کی روشنی میں پہلے علامہ کی شاعری کو سمجھا اور پھر  دُوسروں کی تحریروں کو پرکھا۔
 اُس کے نتیجے میں مجھے جو کچھ نظر آیا اُسے کسی ذاتی پسند اور ناپسند سے بلند ہو کر پیش کر دیا۔
مناسب ہو گا اگر میں یہاں دو جائز شکایات کا تذکرہ بھی کر دوں جو ہندوستان کے بعض قدردانوں کی طرف سے ابن صفی پر میری تحقیق کے بارے میں سننے یا پڑھنے میں آئی ہیں۔
پہلی شکایت یہ ہے کہ میں نے سائیکومینشن میں ابن صفی کو کچھ ایسے رنگ میں پیش کیا ہے جیسے وہ صرف پاکستان کے ادیب ہوں۔ مجھے افسوس ہے اگر  یہ تاثر پیدا ہوا۔  میں نے اپنی دوسری تحریروں میں ہمیشہ یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابن صفی ہندوستان میں بھی مقبول رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ہندوستان کی یونیورسٹیاں ابن صفی کی قدردانی میں شاید پاکستانی درس گاہوں سے آگے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کسی حقیقت پسندانہ سمجھوتے  اور دیرپا مفاہمت کے لیے ابن صفی کا وِژن بہت کارآمد ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم ابن صفی سے رہنمائی لینے پر تیار ہوں۔ اس کے لیے شاید مزید کچھ وقت درکار ہے کیونکہ بعض بزرگ ابھی تک مصر ہیں کہ ابن صفی کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھا جائے۔
دوسرا اعتراض بعض لوگوں کو میری تجویز کی ہوئی اصطلاح "جمہوری ادب" پر ہے۔ میں نے ۲۰۰۹ء میں ایک مقالے میں یہ اصطلاح متعارف کروائی تھی جو اقبال اکادمی پاکستان کے مجلے "اقبالیات" میں شائع ہوا۔ انگریزی میں اسے  “Consensus literature” کہا تھا۔  میری مراد وہ ادب تھا جسے قبولِ عام حاصل ہو یعنی بیک وقت عوام اور خواص دونوں میں مقبول ہو۔یہی بات میں نے سائیکومینشن میں بھی دہرائی۔
بعض احباب کو مختلف وجوہات کی بنا پر جمہوری ادب کی اصطلاح کھٹکتی رہی ہے اگرچہ وہ اس کے مفہوم کو قبول کرتے ہیں۔ ان تمام دوستوں کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ مزید غور کرنے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے ایک مشہور لیکچر میں اِس قسم کے ادب کا تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے اِس کے لیے انگریزی میں یونیفارم کلچر کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اُردو میں اس کا ترجمہ یکرنگ ثقافت کیا گیا تھا۔ اس لیے میں نے پہلے بعض  تحریروں میں جس چیز کو جمہوری ادب کہا تھا، اب اُسے یکرنگ ادب یعنی یونیفارم لٹریچر کہنے کی سفارش کرتا ہوں۔ 
یکرنگ ادب کو ہم مقبولِ عام ادب بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اُن معانی میں نہیں جن میں عالمی اُردو ادب کے تازہ شمارے "مقبولِ عام ادب نمبر" میں استعمال کیا گیا ہے بلکہ صرف اس معانی میں کہ جو ادب بیک وقت عوام اور خواص میں مقبول ہو کر قبولِ عام حاصل کرے۔ 
مکمل تحریر >>

جمعرات، 20 اگست، 2015

قوم کیا چیز ہے؟

گزشتہ پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ قائدِاعظم کے لحاظ سے پاکستان کی بنیاد صرف ایک چیز تھی اور وہ یہ کہ مسلمان ایک قوم ہیں۔ جب انگریزصحافی بیورلی نکلس نے اُن سے پوچھا تب بھی انہوں نے یہی جواب دیا اور دوسرے ہر موقع پر بھی یہی بات دہرائی۔
نکلس نے اُن سے پوچھا کہ جب وہ مسلمانوں کو ایک قوم کہتے ہیں تو کیا وہ مذہب کے حوالے سے سوچ رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آج ہم شاید صرف ایک "ہاں" کی صورت میں دیں گے اور یہیں سے ہماری اور قائد کی سوچ کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔
قائد نے کہا، "کسی حد تک لیکن صرف اسی حوالے سے ہرگز نہیں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت پسندانہ اور قابلِ عمل ضابطہء عمل ہے۔ میں زندگی کے حوالے سے سوچ رہا ہوں،ہر اُس چیز کے حوالے سے جو زندگی میں اہم ہے۔ میں اپنی تاریخ کے حوالے سے سوچ رہا ہوں، اپنے ہیروز، اپنے آرٹ، اپنے فنِ تعمیر، اپنی موسیقی، اپنے قوانین، اپنے اصولِ قانون کے حوالے سے۔"
یہی بات قائد نے مختلف مواقع پر کہی۔ ہم نے اُن کے اس قسم کے متعدد اقوال مطالعہء پاکستان کی کتابوں وغیرہ میں پڑھے ہیں جن میں ایک فہرست ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی یہ مندرجہ چیزیں دوسروں سے جدا ہیں اس لیے وہ ایک قوم ہیں۔ اب غور کیجیے کہ قائد نے اس فہرست میں موسیقی بھی شامل کی ہے۔ کیا ہم بھی مسلم قومیت کی تعریف میں اپنی موسیقی کو شامل کرتے  ہیں؟
یہ مسلم قومیت کی وہ تعریف تھی جسے اُس زمانے کے عام مسلمان بھی سمجھتے تھے اور جسے عالمانہ طور پر علامہ اقبال نے ۱۹۱۱ء میں ایک انگریزی لیکچر میں بھی بیان کیا تھا۔ لیکچر کا ترجمہ "ملتِ بیضا پر عمرانی نظر" کے عنوان سے بیحد مقبول ہوا تھا۔

علامہ نے کہا تھا کہ ایک قوم کے طور پر ملتِ اسلامیہ کا وجود تین اجزاء سے بنتا ہے۔ عقیدہ، سیاسی نظریہ اور یکرنگ ثقافت۔
قائداعظم نے مسلم قومیت کے حوالے سے جن چیزوں کے نام لیے وہ انہی تین شعبوں کی تفصیلات ہیں: عقیدہ، سیاسی نظریہ اور یکرنگ ثقافت۔ 

ہم نے مسلم قومیت کا جو مفہوم سمجھا ہے اُس میں ان تینوں کی نفی ہو جاتی ہے۔ ہم یہ مطلب نکالتے ہیں کہ جو لوگ سچے مسلمان بن جائیں گے صرف وہی مسلمان کہلانے کے حقدار ہوں گے۔ پھر ہم سچے مسلمان کی کوئی ایسی تعریف کرتے ہیں جو ہماری سمجھ کے مطابق ہوتی ہے لیکن مسلمانوں کی اکثریت ایمان کی خوشبو سے محروم قرار پاتی ہے۔
یہ گویا عقیدے کی آڑ میں مسلم قومیت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اصل میں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمان فی الحال ایک قوم نہیں ہیں اور جب ہماری دعوت قبول کریں گے اُس کے بعد وہ ایک قوم، ایک ملت یا ایک اُمت بن جائیں گے۔

درحقیقت یہ ایک مخالف نظریہ ہے۔ اس پر تحریکِ پاکستان کے رہنماوں نے کُھل کر تنقید کی تھی جو محفوظ ہے۔ اُس پر کبھی آیندہ بات ہو گی۔ فی الحال ہم دوسرے عنصر کی طرف آتے ہیں یعنی مسلمانوں کا سیاسی نظریہ۔
مسلمانوں کے پاس ایک واضح سیاسی نظریہ موجود ہے جس میں مسلسل ارتقا ہوتا رہا ہے۔ اس  پر تحقیقی مقالہ علامہ اقبال نے ۱۹۰۸ء میں انگریزی میں لکھا جس کا اُردو ترجمہ "خلافتِ اسلامیہ" کے نام سے بار بار شائع ہوتا رہا۔ یہ نظریہ مسلمانوں نے صدیوں سے قبول کر رکھا تھا  جس میں مزید ارتقاء ہو رہا تھا۔ سنی، شیعہ اور خوارج تینوں بعض اختلافات کے ساتھ اس نظریے کے بنیادی اصولوں پر متفق تھے۔

اس نظریے میں اس بات کی مکمل گنجایش تھی کہ مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ مل کر کوئی ایسی ریاست تخلیق کریں جس میں تمام شہریوں کے برابر حقوق ہوں یہاں تک کہ ایک غیرمسلم اس ریاست کا وزیرِ اعظم بھی بن سکتا ہو۔ علامہ نے یہ بات "خلافتِ اسلامیہ" والے مقالے میں بالکل واضح کر دی تھی اور پھر خطبہء الٰہ آباد میں اِس کی طرف دوبارہ اشارہ کیا تھا۔
اگر مزید کوئی شہادت درکار ہو تو قائدِ ملت لیاقت علی خاں نے ۱۹۴۹ء میں اکستان کی دستورساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا، "ایک اسلامی ریاست میں ایک غیرمسلم بھی انتظامیہ کا سربراہ ہو سکتا ہے جس کے پاس وہ اختیارات ہوں گے جو ریاست کے دستور میں متعین کیے گئے ہوں۔" مزید تفصیلات کے لیے میری مختصر کتاب ملاحظہ کیجیے، " سیاسی نظریہ: علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں
۱۹۲۳ء کے بعد جو نئے مسلم مفکرین سامنے آئے، اُن کی اکثریت نے اس سیاسی نظریے کو مسترد کیا یا پھر اِس کے وجود سے ہی انکار کر دیا۔ اس کی بجائے انہوں نے اپنے اپنے سیاسی نظریات پیش کیے۔ اگرچہ انہوں نے اس کے حق میں قرآن و سنت سے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق دلائل فراہم کیے، لیکن یہ تمام سیاسی نظریے درحقیقت ان محترم مفکرین کی ذاتی آراء ہیں جن کی قدر کی جا سکتی ہے لیکن انہیں "اسلامی سیاسی نظریہ" اُس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک مسلمان اسے قبول نہ کر لیں۔ مسلمانوں نے ابھی تک ایسے کسی متبادل نظریے کو قبول نہیں کیا ہے خواہ وہ مودوی صاحب کا نظریہ ہو یا پھر محمد اسد، غلام احمد پرویز، ڈاکٹر اسرار احمد، جاوید احمد غامدی یا کسی اور بزرگ کا نظریہ ہو۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان میں کسی بزرگ کے معتدین یہ کہیں کہ جو لوگ اس نظریے کو قبول نہیں کرتے وہ مسلم قوم سے خارج ہیں۔

مسلم قومیت کا تیسرا عنصر "یکرنگ ثقافت" ہے۔ یعنی ادب اور فنونِ لطیفہ کے وہ شہپارے جو بیک وقت عوام اور خواص دونوں میں مقبول ہوں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر گفتگو کبھی آیندہ۔ لیکن یہ اتنا اہم موضوع ہے کہ علامہ نے "ملتِ بیضا" والے لیکچر میں کہا تھا کہ عقیدہ خواہ کتنا ہی اہم سہی، ملت کا کوئی فرد اُس وقت تک ملت کے لیے کارآمد نہیں ہوتا جب تک اُس کا باطن یکرنگ ثقافت کا رنگ قبول نہیں کر لیتا۔

علامہ کی بات درست نکلی کیونکہ درحقیقت اِسی یکرنگ ثقافت کے اثر سے محروم ہونے کی وجہ سے ہم مسلم قومیت کے بقیہ دونوں عناصر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 

اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم منزل پر پہنچ کر راستے کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 13 اگست، 2015

پاکستان کیوں وجود میں آیا؟

پاکستان کی بنیاد کیا ہے؟ اِس سوال کے مختلف جوابات دیے جاتے ہیں لیکن  قائداعظم محمد علی جناح کے تمام بیانات کی روشنی میں اس کا صرف ایک درست جواب ہے۔ دو نہیں، تین نہیں بلکہ صرف ایک جواب۔  
ایک برطانوی صحافی بیورلے نکلس نے ۱۹۴۳ء میں قائد کا انٹرویو کیا جو بیحد مشہور ہوا۔ نکلس کی انگریزی تصنیف ورڈکٹ آن انڈیا میں شامل یہ انٹرویو تحریکِ پاکستان کی اہم دستاویزات میں شمار ہوتا ہے۔ نکلس نے جب قائد سے کہا کہ وہ پاکستان کے بنیادی اصول کو کیسے بیان کریں گے تو قائد نے جواب دیا، "پانچ لفظوں میں۔ دی مسلمز آر اے نیشن۔" یعنی مسلمان ایک قوم ہیں۔
یہ ایک واضح بیان ہے جس میں الفاظ کی تعداد تک گنوا دی گئی ہے تاکہ نہ کسی ابہام کی ضرورت رہے نہ اس کی متنازعہ تشریحات ہو سکیں۔ پوری تحریکِ پاکستان کے دوران قائد نے کبھی کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے شبہ پیدا ہو کہ پاکستان کا بنیادی اصول کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات اس حد تک واضح تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد ۱۵ اگست کی صبح پہلی بار قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی قائد نے کہا، "ہندوستان کے مسلمانوں نے دنیا پر ظاہر کر دیا ہے کہ اُن کا مطالبہ جائز تھا اور وہ ایک متحد قوم ہیں۔" گویا پوری جدوجہد کی بنیاد یہی تھی اور جدوجہد مکمل ہونے پر دوبارہ یاد دلانا ضروری ہوا ۔
یہ سیدھی سی بات اُلجھ گئی ہے تو دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ قائدِاعظم اور قائدِملت کی وفات کے بعد حکمرانوں نے مسلم قومیت کی تعریف بدل دی اور وہی بدلی ہوئی تعریف آج تک نقل در نقل چلی آ رہی ہے۔ آج ہم مسلمانوں کو جس طرح ایک قوم سمجھتے ہیں، قائد اُس طرح نہیں بلکہ کسی اور طرح سمجھتے تھے۔ اور ہم جانتے ہی نہیں کہ اُن کے نزدیک مسلمان قوم کا مفہوم کیا تھا۔ اس لیے ہم اپنے بنائے ہوئے مفہوم کو اُن کے اقوال میں بھرتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کامیاب نہیں ہوتی۔ نتیجہ میں اعتراضات کرنے والوں کو موقع ملتا ہے۔
دوسری مشکل اُن اعتراض کرنے والوں کی پیدا کی ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ اِس بات سے متفق نہیں ہیں کہ مسلمان ایک قوم ہیں۔ اُن لوگوں کو حق ہے کہ وہ جیسا چاہیں سمجھیں لیکن بدقسمی سے اُن میں سے بعض لوگ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قائداعظم کے نزدیک بھی پاکستان کی بنیاد کچھ اور تھی۔ یہاں سے علمی بددیانتی شروع ہوتی ہے۔
ان دوستوں کی خدمت میں صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ نکلس والے انٹرویو میں قائداعظم نے یہ کہنے کے بعد کہ پاکستان کے مطالبے کا جواز پانچ لفظوں میں بیان ہوتا ہے، یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور اگر آپ ایک ایماندار شخص ہیں تو پاکستان کا مطلب واضح ہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ یہی نہیں مانتے تو پھر بات ختم۔ گویا اگر کوئی یہی تسلیم نہ کرے کہ مسلمان ایک قوم  ہیں تو  اُس کے ساتھ پاکستان کے موضوع پر گفتگو ہی نہیں ہو سکتی۔ 

یہ درست ہے کہ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ قائد کے نزدیک مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا مطلب کیا تھا اور وہ اُس مفہوم سے کیسے مختلف تھا جو آج رائج ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ اگر قارئین نے دلچسپی ظاہر کی تو اِس موضوع پر بھی بلاگ پر کچھ پیش کر دیا جائے گا۔ ویسے میری انگریزی تصنیف حیاتِ اقبال اور ہمارا عہد (Iqbal: His Life and Our Times)میں اِس کی تفصیل موجود ہے۔ 
مکمل تحریر >>