ہفتہ، 17 فروری، 2018

اقلیتوں کی دوست، اقلیتوں کی دشمن



فرض کیجیے کہ ایک شخص ملبوسات کی دکان میں سے ایک قمیص منتخب کرتا ہے اور کاؤنٹر پر پہنچ کر کہتا ہے، "میں اس قمیص کے صرف دو ہزار روپے دوں گا کیونکہ یہی اس کی صحیح قیمت ہے اور میرے چچا کی دکان پر بھی یہ اتنے کی ملتی ہے لیکن تم چور ہو، تمہارا باپ بھی چور تھا اس لیے اگر تم زیادہ قیمت لینے کی کوشش کرو گے تو میں پولیس کو خبر کروں گا، انکم ٹیکس میں تمہاری شکایت کروں گا، تمہاری دکان بند کروا دوں گا اور تم کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جاؤ گے یہاں تک کہ تمہاری بیوی تمہارے ملازم کے ساتھ بھاگ جائے گی جیسا کہ تمہارے خاندان میں ہوتا چلا آیا ہے۔ اب سیدھی طرح بتا دو کہ یہ قمیص مجھے دو ہزار میں دیتے ہو یا میں تمہیں تمہاری اوقات پر پہنچا دوں؟"

اِس پوری بحث کے دوران وہ شخص اِس بات کو سامنے لانے کی زحمت نہیں کرتا کہ قمیص پر دو ہزار روپے کی قیمت کا ٹیگ ہی لگا ہوا ہے یعنی اگر وہ کچھ بھی نہ کہتا تو اُس سے قمیص کی قیمت دو ہزار روپے ہی طلب کی جانی تھی۔ اِس ساری بحث کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہو گی؟ 

کیا ہمیں وہی رائے اُن تمام لوگوں کے بارے میں قائم نہیں کرنی چاہیے جو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن جنہوں نے آج تک یہ نہیں کہا ہے کہ قراردادِ پاکستان میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اِس ملک میں اقلیتوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور یہی نہیں بلکہ یہ اقدامات اُن کے ساتھ مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں گے؟

یہی بات ۱۹۴۶ء کی قراردادِ دہلی میں بھی دہرائی گئی جس کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ وہ پاکستان کی بنیاد ہے، وہ ہمارا خدا کے ساتھ عہدنامہ ہے اور ہمارے لیے اس کی اطاعت لازمی ہے۔ 

اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے والے تمام لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اگر واقعی آپ کو اقلیتوں کے حقوق کی فکر ہے تو کیوں نہیں آپ نے آج تک اس بات کا ذکر کیا؟ آپ نے آج تک یہ بات کیوں نہیں کہی ہے کہ چونکہ قراردادِ پاکستان میں یہ وعدہ کیا گیا تھا اس لیے پاکستان کی ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ یہ وعدہ پورا کرے؟ اور پاکستان میں کسی بھی گروہ کو سیاست یا ثقافت، مذہب یا کفر کسی بھی بنیاد پر اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ان حقوق کی نفی کرے کیونکہ ایسا کرنا حقیقت میں قراردادِ پاکستان کی نفی ہے جس پر ملک کی بنیاد ہے۔

میں ان لوگوں کو لبرل نہیں کہتا۔ یہ لبرل ازم کے نام پر دھبہ ہیں۔ یہ حقیقت میں مذہبی انتہاپسندی کے اصل بانی ہیں کیونکہ یہ اگر سچ بولتے تو پاکستان میں کسی مذہبی جماعت کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ وہ اسلام کی ایسی تعبیر پیش کرے جو قراردادِ پاکستان اور قراردادِ دہلی کے خلاف ہو اور جو ہمارے اُس عہد کی خلاف ورزی ہو جو ہم نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔

قراردادِ دہلی کو غور سے پڑھیے، جس کے ساتھ میں نے قراردادِ پاکستان کی وہ شِق بھی نقل کر دی ہے جس کا اُس قرارداد میں اعادہ کیا جا رہا ہے۔ اُس کے بعد خدا کے لیے اپنے ضمیر سے پوچھیے اور دل چاہے تو لوگوں کو بھی بتائیے کہ کیا آپ کے خیال میں یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیں یہ بات یاد رہے؟

ممکن ہے آپ کو میری تحریر میں تلخی محسوس ہو لیکن خود ہی انصاف کیجیے کہ کیا یہ تلخی جائز نہیں ہے؟ خدا سے میری دعا ہے کہ اس معاملے میں آپ بھی اسی طرح تلخ ہو جائیں۔  

مکمل تحریر >>

بدھ، 14 فروری، 2018

قراردادِ دہلی ۱۹۴۶ء

میں یہ قرارداداِس لیے پوسٹ کر رہا ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہ پاکستان کی بنیاد ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو پاکستانیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کر رکھا ہے اور یہی معاہدہ ہم نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔ 

گزشتہ دس گیارہ برس میں میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے اُس کی بنیاد یہی نکتہ ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کم سے کم کچھ پڑھے لکھے لوگ ایسے ہوں جو پوری سنجیدگی کے ساتھ اِس قرارداد کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اسے معاشرے کی بنیاد تسلیم کرتے ہوں اور جو اپنے دل میں وہی حلف اٹھائیں جو قائداعظم اور دوسرے مسلمانوں نے ۱۹۴۶ء میں اٹھایا تھا۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ 

میری درخواست ہے کہ اگر آپ اِس بات سے متفق ہیں اور آپ کو بھی اپنے دل میں اُسی حلف سے وفاداری کی خواہش محسوس ہوتی ہے تو اِس پوسٹ کے نیچے تبصرے یعنی کمنٹ کی صورت میں اظہار کر دیجیے۔ 

یہ ہم سب کا مشترکہ ورثہ ہے۔



قرارداد جو ۹ ؍اپریل ۱۹۴۶ء کو دہلی میں مسلم لیگ لیجسلیٹرز کنونشن میں متفقہ طور پر منظور کی گئی


جبکہ ہندوستان کے اِس وسیع برِصغیر میں دس کروڑ مسلمان ایک ایسے عقیدے کے پیرو ہیں جو اُن کی زندگی کے ہر شعبے (تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی)  میں  نافذ ہے، جس کا ضابطہ محض روحانی تعلیمات اور عقائد، اور رسومات و تقریبات تک محدود نہیں ہے، اور جو ہندو دھرم اور فلسفے کی اُس امتیازی نوعیت سے ٹکراتا ہے جس نے ہزاروں سال سے  ذات پات کے ایک منجمد نظام کو پروان چڑھا  کر چَھ کروڑ انسانوں کو اَچھوت بنا دیا ہے، جس نے انسان اور انسان کے درمیان غیرفطری دیواریں کھڑی کی ہیں،  اور جس کی وجہ سے مسلمان، عیسائی اور دوسری اقلیتیں سماجی اور اقتصادی طور پر دائمی غلامی کے خطرے سے دوچار ہیں؛

جبکہ ذات پات کا ہندو نظام قومیت، مساوات، جمہوریت اور اُن تمام بلند مقاصد کی کھلی خلاف ورزی ہے جن کی اسلام نمایندگی کرتا ہے؛

جبکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مختلف  تاریخی پس منظر، روایات، ثقافت، اور سماجی اور اقتصادی نظاموں کی وجہ سے ناممکن ہے کہ ایک واحد ہندوستانی قوم ارتقا پا سکے جس کے ارمان اور نصبُ العین مشترک ہوں، اور صدیوں بعد بھی وہ ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف دو قومیں ہیں؛

جبکہ  ہندوستان میں مغربی جمہوریت کی طرز کے سیاسی ادارے متعارف کروانے کی برطانوی پالیسی کے نفاذ کے بعد جلد ہی واضح ہو گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم یا معاشرے کی اکثریت دوسری قوم یا معاشرے کی اکثریت پر اُس کی مرضی کے خلاف حکومت کرے گی، جیسا کہ ۱۹۳۵ کے دستورِ ہند کے تحت ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگرس کی حکومت کے ڈھائی سال میں کُھل کر سامنے آ گیا جب  مسلمانوں کو ناگفتہ ہراس اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد وہ دستور میں فراہم کیے ہوئے نام نہاد تحفظات اور گورنروں  کو دی ہوئی ہدایات کے بے اثر ہونے کے قائل ہو کر اِس نتیجے پر  پہنچنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ایک متحدہ ہندوستانی وفاق قائم ہوا تو مسلم اکثریت کے صوبوں میں بھی مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر نہ ہو گی، اور اُن کے حقوق اور مفادات مرکز کی مستقل ہندو اکثریت کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں گے؛

جبکہ مسلمانوں کو یقین ہے کہ مسلم ہندوستان کو ہندوؤں کے تسلط سے بچانے اور مسلمانوں کواپنی قدرتی صلاحیتوں کے مطابق خود کو ترقی دینے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے  یہ ضروری ہے کہ شمال مشرقی حصے میں بنگال اور آسام، اور شمال مغربی حصے میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان  پر مشتمل خودمختار ریاست قائم کی جائے؛

ہندوستان کے مرکزی اور صوبائی مسلم لیگی قانون سازوں کا یہ کنونشن  گہرے غور و خوص کے بعد اعلان کرتا ہے کہ   مسلم قوم کبھی ایک متحدہ ہندوستان کے  لیے  آئین قبول نہ کرے گے اور کبھی اس مقصد کے لیے بننے والی واحد دستورساز  ادارے میں شریک نہ ہو گی، اور ہندوستان کے عوام کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے برطانوی حکومت کا کوئی فارمولا ہندوستان کے مسئلے کو حل کرنے میں مفید نہ ہو گا اگر وہ مندجہ ذیل اصولوں کے مطابق نہ ہوا جو انصاف پر مبنی ہیں اور ملک میں داخلی امن و سکون قائم رکھنے والے ہیں:

کہ  بنگال اور آسام پر مبنی شمال شرقی حصہ اور پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان پر مبنی شمال مغربی حصہ، یعنی پاکستانی حصے، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،  ایک آزاد خومختار  بنایا جائے اور کسی تاخیر کے بغیر پاکستان کے قیام پر عمل درآمد کرنے کا حتمی وعد ہ کیا جائے؛

کہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام اپنے اپنے آئین کی تشکیل کے لیے دو علیحدہ دستورساز ادارے قائم کریں؛

کہ پاکستان اور ہندوستان میں اقلیتوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ کو لاہور میں منظور کی ہوئی قرارداد  کے مطابق تحفظات فراہم کیے جائیں؛

کہ  مرکزی میں عبوری حکومت کی تشکیل میں مسلم لیگ کے تعاون اور  شمولیت کی بنیادی شرط مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی قبولیت اور اس پر بلاتاخیر عمل درآمد ہے؛

مزید برآں یہ کنونشن پرزور اعلان کرتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی بنیاد پر کسی آئین کو نافذ کرنے یا مسلم لیگ کے مطالبے کے برعکس مرکز میں کوئی عبوری بندوبست نافذ کرنے کی کوئی بھی کوشش   مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑے گی کہ اپنی بقا اور قومی وجود کی خاطر ہر ممکن طریقے سے اس کی مزاحمت کریں۔

قراردادِ لاہور میں اقلیتوں کے لیے تحفظات


آئین میں اِن وحدتوں اور علاقوں کی اقلیتوں  کو اُن  کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے کافی، موثر اور لازمی تحفظات اُن سے  مشاورت کے ساتھ فراہم کیے جائیں گے؛ اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہے، اُن کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے کافی، موثر اور لازمی تحفظات اُن سے  مشاورت کے ساتھ آئین میں فراہم کیے جائیں گے۔

حلف


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
میں اپنے اس پختہ عقیدے کا باقاعدہ اعلان کرتا /کرتی ہوں کہ ہندوستان کے اس برصغیر میں آباد ملتِ اسلامیہ کا تحفظ اور سلامتی، اور نجات اور تقدیر صرف پاکستان کے حصول پر موقوف ہے، جو دستوری مسئلے کا واحد منصفانہ، عزت دارانہ  اورعادلانہ حل ہے، اور جو اِس عظیم برصغیر کی مختلف قوموں اور ملّتوں کے لیے امن، آزادی اور خوشحالی لائے گا؛
میں پوری   ذمہ داری کے ساتھ اقرار کرتا/کرتی ہوں کہ پاکستان کے عزیز قومی نصبُ العین کےحصول کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ  کی طرف سے شروع کی جانے والی کسی بھی تحریک پر عمل درآمد کے لیے اس کی طرف سے جاری ہونے والے تمام احکامات اور ہدایات کی دلی رضامندی اور استقامت کے ساتھ اطاعت کروں گا/گی، اور چونکہ مجھے اپنے مقصد کے حق و انصاف پر مبنی ہونے کا یقین ہے، میں ہر اُس خطرے، امتحان یا قربانی سے گزرنے کا حلف اٹھاتا/اٹھاتی ہوں جس کا مجھ سے تقاضا کیا جائے۔
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
آمین
مکمل تحریر >>