فرض کیجیے کہ ایک شخص ملبوسات کی دکان میں سے ایک قمیص منتخب کرتا ہے اور کاؤنٹر پر پہنچ کر کہتا ہے، "میں اس قمیص کے صرف دو ہزار روپے دوں گا کیونکہ یہی اس کی صحیح قیمت ہے اور میرے چچا کی دکان پر بھی یہ اتنے کی ملتی ہے لیکن تم چور ہو، تمہارا باپ بھی چور تھا اس لیے اگر تم زیادہ قیمت لینے کی کوشش کرو گے تو میں پولیس کو خبر کروں گا، انکم ٹیکس میں تمہاری شکایت کروں گا، تمہاری دکان بند کروا دوں گا اور تم کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جاؤ گے یہاں تک کہ تمہاری بیوی تمہارے ملازم کے ساتھ بھاگ جائے گی جیسا کہ تمہارے خاندان میں ہوتا چلا آیا ہے۔ اب سیدھی طرح بتا دو کہ یہ قمیص مجھے دو ہزار میں دیتے ہو یا میں تمہیں تمہاری اوقات پر پہنچا دوں؟"
اِس پوری بحث کے دوران وہ شخص اِس بات کو سامنے لانے کی زحمت نہیں کرتا کہ قمیص پر دو ہزار روپے کی قیمت کا ٹیگ ہی لگا ہوا ہے یعنی اگر وہ کچھ بھی نہ کہتا تو اُس سے قمیص کی قیمت دو ہزار روپے ہی طلب کی جانی تھی۔ اِس ساری بحث کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہو گی؟
کیا ہمیں وہی رائے اُن تمام لوگوں کے بارے میں قائم نہیں کرنی چاہیے جو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن جنہوں نے آج تک یہ نہیں کہا ہے کہ قراردادِ پاکستان میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اِس ملک میں اقلیتوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اور یہی نہیں بلکہ یہ اقدامات اُن کے ساتھ مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں گے؟
یہی بات ۱۹۴۶ء کی قراردادِ دہلی میں بھی دہرائی گئی جس کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ وہ پاکستان کی بنیاد ہے، وہ ہمارا خدا کے ساتھ عہدنامہ ہے اور ہمارے لیے اس کی اطاعت لازمی ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے والے تمام لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اگر واقعی آپ کو اقلیتوں کے حقوق کی فکر ہے تو کیوں نہیں آپ نے آج تک اس بات کا ذکر کیا؟ آپ نے آج تک یہ بات کیوں نہیں کہی ہے کہ چونکہ قراردادِ پاکستان میں یہ وعدہ کیا گیا تھا اس لیے پاکستان کی ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ یہ وعدہ پورا کرے؟ اور پاکستان میں کسی بھی گروہ کو سیاست یا ثقافت، مذہب یا کفر کسی بھی بنیاد پر اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ان حقوق کی نفی کرے کیونکہ ایسا کرنا حقیقت میں قراردادِ پاکستان کی نفی ہے جس پر ملک کی بنیاد ہے۔
میں ان لوگوں کو لبرل نہیں کہتا۔ یہ لبرل ازم کے نام پر دھبہ ہیں۔ یہ حقیقت میں مذہبی انتہاپسندی کے اصل بانی ہیں کیونکہ یہ اگر سچ بولتے تو پاکستان میں کسی مذہبی جماعت کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ وہ اسلام کی ایسی تعبیر پیش کرے جو قراردادِ پاکستان اور قراردادِ دہلی کے خلاف ہو اور جو ہمارے اُس عہد کی خلاف ورزی ہو جو ہم نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔
قراردادِ دہلی کو غور سے پڑھیے، جس کے ساتھ میں نے قراردادِ پاکستان کی وہ شِق بھی نقل کر دی ہے جس کا اُس قرارداد میں اعادہ کیا جا رہا ہے۔ اُس کے بعد خدا کے لیے اپنے ضمیر سے پوچھیے اور دل چاہے تو لوگوں کو بھی بتائیے کہ کیا آپ کے خیال میں یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیں یہ بات یاد رہے؟
ممکن ہے آپ کو میری تحریر میں تلخی محسوس ہو لیکن خود ہی انصاف کیجیے کہ کیا یہ تلخی جائز نہیں ہے؟ خدا سے میری دعا ہے کہ اس معاملے میں آپ بھی اسی طرح تلخ ہو جائیں۔
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔