اتوار، 2 اکتوبر، 2016

کربلا - علامہ اقبال کی شاہکار نظم




اسلامی آزادی اور حادثۂ کربلا کے راز کی وضاحت میں

جس کسی نے ھوَالموجود سے پیمانِ وفا باندھا اُس کی گردن ہر معبود سے آزاد ہو گئی۔
مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہر ناممکن، ممکن ہو جاتا ہے۔
عقل سفاک ہے مگر عشق زیادہ سفاک ہے۔ زیادہ پاک، زیادہ چالاک اور زیادہ بیباک ہے۔
عقل اسباب و علل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدانِ عمل کا کھلاڑی ہے۔
عشق قوّتِ بازو سے شکار کرتا ہے جبکہ عقل مکّار ہے اور جال بچھاتی ہے۔
عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق کے لیے عزم و یقیں لازم و ملزوم ہیں۔
عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے اور عشق کی ویرانی میں بھی تعمیر چھپی ہوئی ہے۔
عقل ہوا کی طرح دنیا میں ارزاں ہے جبکہ عشق کمیاب اور بیش قیمت ہے۔ 
عقل 'کیوں' اور 'کتنا' کی بنیاد پر محکم ہوتی ہے جبکہ عشق اس لباس سے بے پروا ہے۔
عقل کہتی ہے کہ اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھو۔ عشق کہتا ہے کہ خود کو امتحان میں ڈالو۔
عقل فائدے نقصان کا حساب کتاب کر کے دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے اور عشق اللہ کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنا حساب کتاب خود کرتا ہے۔
عقل کہتی ہے کہ خوش رہو اور آباد رہو، عشق کہتا ہے، کہ اللہ کی غلامی اختیار کرو اور آزاد ہو جاؤ۔
عشق کے لیے آزادی میں روح کا سکون ہے، اُس کے ناقہ کی ساربان آزادی ہے۔ 
کیا تم نے سنا ہے کہ جنگ میں عشق نے عقل کا مقابلہ کیسے کیا؟
وہ عااشقوں کے امام اور سیدہ فاطمہ کے بیٹے جو حضور صلی اللہ علیہ کے باغ کے آزاد سرو تھے۔
اللہ، والد کا مقام بسم کی "ب" جیسا تھا اور اور بیٹا "ذبحِ عظیم" کا اصل مفہوم بن گیا۔
خیرُ الملل کے اس شہزادے کے لیے آخری نبی کا کاندھا گویا ایک خوبصورت سواری تھی۔ 
اُن کے خون سے عشقِ غیور سرخرو ہوا۔ یہ مصرع اُنہی کے مضمون سے شوخی سے ہمکنار ہوا۔ 
یہ بلندمرتبہ شخصیت ملّت میں یوں ہے جیسے قرآن میں "قل ھواللہ" ہے۔
موسیٰ اور فرعون، شبیر اور یزید۔ زندگی سے یہ دو قوتیں جنم لیتی ہیں۔
شبیری کی قوت سے حق زندہ ہے۔ باطل کا انجام بالآخر حسرت زدہ موت ہے۔
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اُس نے آزادی کے حلق میں زہر اُنڈیل دیا۔
تب یہ جلوہ، جوخیرُالامم کے تمام جلووں میں سرِ فہرست ہے، یوں اُٹھا جیسے قبلے کی جانب سے بارش کا بادل۔
کربلا کی زمین پر برسا، اُس ویرانے میں لالے کے پھول اُگائے اور آگے بڑھ گیا۔
قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی۔ اُس کے لہو نے ایک نیا چمن پیدا کر دیا۔
وہ حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹ گئے اور یوں وہ "لاالٰہ" کی بنیاد بن گئے۔
اگر اُن کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے سے سامانِ سفر کے ساتھ سفر اختیار نہ کرتے۔
دشمن صحرا کی ریت کی طرح لاتعداد تھے اور اُن کے دوست یزداں کے عدد کے لفظ کے برابر تھے، صرف بہتر۔ 
وہ ابراہیم اور اسماعیل کا راز ثابت ہوئے یعنی وہ اجمال تھے اور آپ تفصیل۔ 
اُن کا عزم پہاڑوں کی طرح محکم، پائیدار، آمادۂ عمل اور کامیاب تھا۔
اُن کی تلوار محض دین کی عزت کے لیے تھی اور اُن کا مقصد محض آئینِ شریعت کی حفاظت تھا۔ 
مسلمان اللہ کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا۔ وہ فرعون کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتا۔


 اسرار و رموز۔ ترجمہ مزملہ شفیق
مکمل تحریر >>