جمعرات، 16 جون، 2016

ریاست کا حق


شاید قدرت کی ستم ظریفی اسے ہی کہتے ہیں کہ  عین اُس وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ اُنہیں امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف قانون سازی کی اجازت مل جائے، ہمارے میڈیا میں یہ غل مچا ہے کہ  پاکستان میں بھی احمدیوں کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ اگر کسی کے خیال میں معاشرے کے کسی طبقے کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو ضرور آواز اُٹھانی چاہیے  لیکن افسوس کہ فی الحال یہ  آواز جس طرح اُٹھی ہے اُس میں ایک بنیادی غلطی ہے۔ 

"کیا ریاست کے پاس یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے؟" یہ سوال کچھ ایسے انداز میں پوچھا جا رہا ہے جیسے ریاست کے اس حق سے انکار کرتے ہی آسمان سے پھول برسنے لگیں گے۔  حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 



تاریخ نے اس  سوال کے تین  جوابات ہمارے سامنے رکھے  ہیں۔ سب سے پہلے علامہ اقبال نے جنوری ۱۹۳۶ء میں اپنے مقالے "اسلام اور احمدیت" میں لکھا  کہ  ایک مسلم اکثریتی ریاست حق رکھتی ہے کہ وہ کسی گروہ کو غیرمسلم قرار دے لیکن یہ اقدام کرتے ہوئے ریاست "خالص مذہبی نقطۂ نگاہ کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کو پیشِ نظر رکھے گی۔" مطلب یہ کہ ریاست کے پاس یہ حق ہے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے لیکن اس کا فیصلہ بھی ریاست ہی کرے گی کہ یہ حق کب استعمال کرنا ہے۔ اس معاملے میں ریاست علمائے کرام سے مشورہ ضرور کر سکتی ہے لیکن اُن کی رائے کی پابند نہیں ہے۔ مسلم  قیادت ۱۹۵۴ء تک اسی موقف پر قائم رہی۔ 

۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں ایک اور موقف پیش کیا گیا۔ مجلسِ احرار، جماعتِ اسلامی اور بعض دوسری جماعتوں کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے اور اعلیٰ ملازمتوں سے بے دخل کیا جائے۔ یہ مطالبہ منظور کروانے کے لیے "سول نافرمانی" کی تحریک چلائی گئی۔ اس طرح یہ موقف سامنے آیا کہ ریاست اس معاملے میں علمائے کرام کی رائے کی پابند ہے۔ یہ علامہ اقبال اور پاکستان بنانے والوں کے موقف سے مختلف تھا۔ 

۱۹۵۴ء تک پاکستان میں سیکولر ڈکٹیٹرشپ قائم ہو چکی تھی۔ اُس برس حکومت نے "منیر رپورٹ" شائع کی جس میں کہا گیا  کہ ریاست کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے۔  ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۵۴ء میں پاکستانی حکومت نے  یہ نظریہ اپنا یا کیونکہآیندہ بیس برس میں جتنے بھی حکمراں آئے وہ یہی نظریہ  رکھتے تھے، یعنی اسکندر مرزا، ایوب خاں، یحییٰ خاں اور ذوالفقار علی بھٹو۔

یہ نظریہ ریاست کو اُس وقت ترک کرنا پڑا جب ۱۹۷۴ء میں جماعتِ اسلامی اور مجلسِ احرار کی طرف سے ایک دفعہ پھر یہ مطالبہ ہوا کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ بھٹو صاحب کی پارلیمنٹ نے اس معاملے کا فیصلہ علمائے کرام کی آرأ کے مطابق کر کے عملاً وہ نظریہ اپنا لیا جسے ۱۹۵۳ء میں مجلسِ احرار وغیرہ نے پیش کیا تھا۔ 



تاریخ اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی کہ مذہبی نقطۂ نظر سے کون سا نظریہ درست ہے۔ اس کا فیصلہ صرف مذہب ہی کر سکتا ہے۔ تاریخ صرف اتنا بتا سکتی ہے کہ  کوئی  نظریہ اختیار کرنے کا نتیجہ کیا نکلا۔

تجربے سے ثابت ہے  کہ جب پہلا نظریہ اختیار کیا گیا یعنی ریاست مکمل اختیار رکھتی ہے کہ کسی گروہ کو غیرمسلم قرار دے یا نہ دے، تو نتیجے میں ریاست اتنی طاقتور ہو گَئی کہ  ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے مجلسِ احرار اور جماعتِ اسلامی وغیرہ کے مطالبات رد کر دئیے۔ اسمبلی نے بھی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ نہ وہ اسمبلی سیکولر تھی نہ ہی خواجہ صاحب کوئی سیکولر شخصیت تھے۔ اسمبلی وہی تھی جس نے قراردادِ مقاصد منظور کی تھی۔ خواجہ صاحب باعمل مسلمان تھے جو ختمِ نبوت پر کامل یقین رکھتے تھے اور علمائے کرام کی بڑی عزت کرتے تھے۔ لیکن ایک اسلامی ریاست کے بارے میں اُن کا نظریہ وہی تھا جو یہاں بیان ہوا ہے۔  مجلسِ احرار وغیرہ کے مطالبات بھی انہوں نے اسی بنیاد پر رد کیے تھے۔ اس سے قطعِ نظر کہ اُن کا فیصلہ درست تھا یا غلط، بہرحال یہ ثابت ہے کہ یہ  نظریہ حکومت کو اتنی قوت دیتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور اُسے منوا سکے۔ 

جہاں تک دوسرے نظریے کا تعلق ہے یعنی ریاست کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی کو غیرمسلم قرار دے، تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہ ناقابلِ عمل ہے۔  جب ۱۹۵۴ء میں یہ نظریہ اختیار کیا گیا تو  بیس برس بعد حکومت کو اُنہی تنظیموں کے  سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے جنہیں  پہلے شکست دی گئی تھی۔ حالانکہ بھٹو صاحب، خواجہ صاحب سے زیادہ قوت رکھتے تھے۔ ۱۹۷۴ء میں قوم میں مذہبی جوش بھی ۱۹۵۲ء سے کم تھا۔ لہٰذا ہمِں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ۱۹۷۴ء میں بھٹو صاحب کی "کمزوری" کی اصل وجہ یہی تھی کہ اُن کے پیشرو اُنہیں ایک ناقابلِ عمل نظریہ سونپ گئے تھے۔

آج سیکولر ذہن رکھنے والے  کہتے ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ ہونے والی "ناانصافی" کا حل یہ ہے کہ وہی نظریہ دوبارہ نافذ کر دیا جائے  لیکن وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیتے کہ جسے  وہ  "نا انصافی" کہہ رہے  ہیں یہ  تو شروع ہی اُس وقت ہوئی جب ریاست نے یہ نظریہ قبول کیا۔ فرض کیجیے کہ آج پھر ہم یہ نظریہ قبول کر لیں تو کیا ضمانت ہے کہ بیس برس بعد دوبارہ اسے ترک کر کے مزید "ناانصافی"  نہیں کرنی پڑے گی؟ ہمیں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ نے اس نظریے کو باطل قرار دے دیا ہے۔ اس نظریے کو دوبارہ پیش کرنے سے صرف مزید کنفیوژن پھیلے گا۔ اگر فی الحقیقت معاشرے میں کسی ایسی "اصلاح" کی خواہش ہے جسے سب قبول کر  سکیں تو سب سے پہلے اس نظریے کو ترک کرنا پڑے گا۔ 

اس طرح ہمارے سامنے صرف دو نظریے رہ جاتے ہیں۔ ایک وہ نظریہ جو فی الحال رائج ہے یعنی ریاست اس معاملے میں علمائے کرام کی مرضی کے تابع ہے۔ اگر سیکولر ذہن رکھنے والوں کو یہ نظریہ پسند نہیں ہے تو سب سے پہلے انہیں حقیقت پسندی کے ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ  نظریہ پاکستان کے ساتھ پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ  صرف اور صرف اس لیے رائج ہوا کہ ہمارے سیکولر طبقے نے ایک باطل نظریہ رائج کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ اُس کا ردِ عمل ہے۔ 

اس نظریے کے متبادل کے طور پر تاریخ نے صرف ایک اور نظریہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور وہ یہ کہ ریاست اس اختیار کے استعمال میں خودمختار ہے۔ پاکستان اسی نظریے کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔  آیندہ یہ نظریہ دوبارہ رائج ہو سکتا ہے یا نہیں، اِس کا فیصلہ صرف آنے والا وقت ہی کرے گا۔لیکن فی الحال ہمیں صرف یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی تیسرا متبادل موجود نہیں ہے۔ 



اس کے ساتھ ہی یہ تلخ حقیقت بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے  کہ ماضی میں جب کبھی احمدیت کے بارے میں سوال اُٹھا ہے، کسی نہ کسی تیسری طاقت نے موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ۱۹۳۵ء میں جب برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے، پنڈت جواہرلال نہرو نے فوراً ہی مضامین کا ایک سلسلہ شائع کر دیا جس میں تان اس بات پر ٹوٹی کہ اسماعیلی فرقہ بھی احمدیوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی  کہ آغا خاں، نہرو کے سیاسی حریف تھے۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے اپنا شہرۂ آفاق مقالہ "اسلام اور احمدیت" شائع کر کے علاوہ دوسری باتوں کے یہ بھی واضح کیا کہ اسماعیلی بالکل اسلام کے دائرے کے اندر ہیں۔

اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا مطالبہ ہوا اور نوبت خون خرابے تک پہنچی تو گورنر جنرل غلام محمد نےوزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اُنہیں برطرف کر کے امریکہ کے حمایتی  محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کر لیا جہاں سے درحقیقت ہماری اُس غلامی کا آغاز ہوتا ہے جس سے ہم ابھی تک شاید پوری طرح نکل نہیں سکے ہیں۔
 ۱۹۷۴ء میں جب ایک دفعہ پھر یہ مطالبہ سامنے آیا تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے وہ قانون منظور کیا جس کے مطابق احمدی غیرمسلم قرار پائے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ اعظم تھے جن کے حامی خود کہتے ہیں کہ اس میں بھٹو صاحب کی نیت کو دخل نہ تھا بلکہ اُنہوں نے اپنا شخصی اقتدار مضبوط کرنے کی خاطر یہ قدم اٹھایا تھا۔
اب جبکہ احمدی مسئلہ ہمارے یہاں دوبارہ اُچھالا گیا ہے، امریکہ میں الیکشن کا بازار گرم ہے۔ مسلمانوں کے خلاف قوانین وضع کرنا اِس دفعہ ایک گروہ کا اہم ایجنڈا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے ناخوشگوار واقعے کو شہرت دے کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔ ایک امریکی نائٹ کلب میں مبینہ قتلِ عام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کو بیدردی کے ساتھ قتل بھی کیا جا رہا ہے اور یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ  کوئی اُن کے ساتھ ہمدردی  محسوس نہ کر سکے۔  لیکن اس میں دوسروں کی بدنیتی سے کہیں زیادہ ہماری سیاسی ناپختگی کو دخل ہے   کیونکہ اکثر مسلمان قوموں کی آزادی کو بمشکل ساٹھ ستر برس ہوئے ہیں۔ ہماری ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اس بات  کی ہے کہ ہم اپنے سابقہ تجربات سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت پیدا کریں۔ یہ صلاحیت کسی اسکول، کالج اور دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں بھی نہیں مل سکتی۔ یہ ہمیں خود ہی پیدا کرنی ہو گی۔
مکمل تحریر >>