جمعہ، 18 اگست، 2017

پاکستان کے دس اصول



کچھ دن پہلے ایک دانشور کی فیس بک کی دیوار پر کسی نوجوان کا تبصرہ پڑھا ، "آپ لوگ کوئی عملی اقدام کیوں نہیں کرتے؟ انسان مر رہے ہیں مگر آپ لوگ صرف نظریات اور گفتگوئیں پیش کر رہے ہیں۔" غالباً یہ سوال آج کل بہت سے ذہنوں میں ہو گا۔ عام طور پر ہماری سوچ جس قسم کے عملی اقدامات کی طرف جاتی ہے، میرے خیال میں اُس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ باہر سے نہیں بلکہ ہمارے اندر سے آئے گی۔ پاکستان پہلے ہی ایک  مثالی ریاست ہے۔ یہ مرغدین ہے۔ صرف ہم اس میں رہنے کے آداب سے واقف نہیں ہیں۔

ہمیں اپنے آپ کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چلانے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ میری تحقیق کے مطابق یہ دس ہیں۔ ان سب کو قبول کرنا ضروری ہے کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو باقی بیکار ہو جاتے ہیں۔ بہتری کے بجائے بگاڑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔   ۲۰۰۷ء سے میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں، انہی کی وضاحت ہے۔ ان میں سے  اقبال: دورِ عروج میں بہت سا تاریخی مواد سامنے لانے کا موقع ملا ہے جس سے یہ بات  واضح ہو سکے کہ جس زمانے میں پاکستان کا تصوّر تشکیل پا رہا تھا، قوم نے انہی اُصولوں کو رہنما بنایا ہوا تھا۔ آپ اِس نظر سے وہ کتاب پڑھیں تو بہت کچھ مل جائے گا۔ میں بھی کوشش کروں گا کہ چھوٹی چھوٹی تحریروں میں عام فہم انداز میں اِن اصولوں کی علیحدہ علیحدہ وضاحت پیش کروں (ایک وضاحت میری مختصر کتاب اسلامی سیاسی نظریہ بھی ہے)۔

جو دوست اور قارئین میری تحریروں سے کچھ نہ کچھ واقف ہیں اُن سے میری درخواست ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان دس نکات پر غور کریں۔ جو سوال آپ کے ذہن میں آئیں ان سے مجھے بھی آگاہ کیجیے۔ ممکن ہے کہ اس طرح مجھے مزید تحقیق میں مدد ملے۔ ویسے آپ خود ہی مجھ سے بہتر جواب تلاش کر  سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک چیز بھی میں نے اپنی طرف سے ایجاد نہیں کی ہے۔ علامہ اقبال، قائداعظم، لیاقت علی خاں اور مسلم لیگ نے ہمارے لیے جو ورثہ چھوڑا ہے، یہ  سب  اُس میں موجود ہے۔ اِسی لیے مجھے یقین ہے کہ بالآخر ہمیں یہی اصول اختیار کرنے پڑیں گے، خواہ رغبت کے ساتھ یا مجبوری کی حالت میں۔ آپ انہیں صرف اپنے دل قبول کروا لیجیے، باقی کام قدرت آپ کے لیے کر سکتی ہے۔

  1. ہمیں سیاسی جماعتوں کے بجائے قومی مقاصد کی پیروی کرنی چاہیے۔ ملک میں ایک ہی سیاسی جماعت ہونی چاہیے جس کے دروازے ہر مکتبِ فکر کے لیے کُھلے ہوں۔ ورنہ تمام سیاسی جماعتیں قومی مقاصد پر متفق ہو کر اُن کے حصول کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں۔   پہلی صورت حال کی مثال آل انڈیا مسلم لیگ تھی۔ اقبال: دورِ عروج کے نویں باب 'خدا کا شہر' میں دیکھیے کہ الٰہ آباد والے اجلاس کا دعوت نامہ جو ۲۷جولائی ۱۹۳۰ء کو جاری کیا گیا، اُس میں خاص طور پر اِس کا ذکر ہے۔ دوسری صورتِ حال کی مثال آل انڈیا مسلم کانفرنس ہے، جس کا احوال ساتویں باب 'شہید کی قبر' کے شروع میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
  2. زیادہ سے زیادہ اختیار چھوٹی سے چھوٹی وحدت کے پاس ہونا چاہیے۔ یہ اصول قیامِ پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کی سیاست کی بنیاد تھا۔ اقبال: دورِ عروج کے چھٹے باب 'قصرِ حکومت' میں جون ۱۹۲۸ء کے واقعات میں آپ  دیکھ سکتے ہیں کہ علامہ نے محض اِس کی خاطر لیگ کے جنرل سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر تیار ہو گئے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے لیکن پوری کتاب پڑھنے سے واضح ہو جائے گا کہ اصل میں یہی نکتہ فلسفۂ خودی کا عملی پہلو ہے جس کے بغیر خودی محض قوالوں کے کام کی چیز رہ جاتی ہے، قوم کے کام نہیں آ سکتی۔ 
  3. مذہبی اقلیتوں کے تمام حقوق اُن سے مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں۔ یہ اصول قراردادِ پاکستان کا بنیادی نکتہ تھا اور قراردادِ دہلی میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا۔ قراردادِ مقاصد کی تشریح میں بھی کہا گیا کہ ایک اسلامی ریاست میں ایک غیرمسلم وزیرِاعظم بھی بن سکتا ہے۔ یہ دستاویزات اقبال: دَورِ عروج میں شامل نہیں ہیں مگر وہاں اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ سمجھ میں آ سکتا ہےکہ مسلم لیگ کی قیادت اِس نکتے کی تشریح کس طرح کرتی تھی۔ 
  4. تاریخی تجربات کے انکشافات پر غور کر کے ذریعے سیاسی نظریے کو ترقی دی جائے۔ دلائل تو کسی اصول کے حق میں بھی دئیے جا سکتے ہیں لیکن ان اصولوں کی سچائی تجربے سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اِس لیے ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ سچے اصول کی پہچان یہ نہیں ہہوتی کہ اُس کے حق میں دینی یا لادینی دلائل کے انبار لگائے جا سکیں۔ اصول کی سچائی اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ اس پر عمل کر کے آپ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ 
  5. اتفاقِ رائے ہمارا سب سے اہم اصول ہونا چاہیے۔علامہ اقبال کے مطابق اسلامی دستور کابنیادی اصول اتفاقِ رائے ہے۔ اِس کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ اجتماعی رائے کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اجتماعی رائے اور سب سے کی رائے میں فرق پہلے واضح کر چکا ہوں۔ اجتماعی رائے سے علامہ کا کیا مطلب تھا اور وہ اس کی اطاعت میں کس حد تک جانے پر تیار رہتے تھے، یہ آپ اقبال: دورِ عروج پڑھ کر جان سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم حوالہ ساتویں باب کے شروع میں مسلم کانفرنس کی مفصل روئیداد ہے جس کا ذکر پہلے اصول کے ضمن میں کیا جا چکا ہے۔ 
  6. اقتدارِ اعلیٰ عملاً عوام کے پاس ہے۔ علامہ اقبال کے مطابق یہ بات حضرت عمر فاروقؓ کے دور تک تسلیم کی جا چکی تھی کہ اقتدارِ اعلیٰ عملاً عوام کے پاس ہے۔ قراردادِ مقاصد کے مطابق بھی خدا نے اقتدارِ اعلیٰ عوام کو دیا ہے اور عوام کے ذریعے امانتاً ریاست کو منتقل ہوتا ہے۔ 
  7. اقتدارِ اعلیٰ قانوناً خدا کے پاس ہے۔علامہ کے نزدیک اسلامی ریاست میں خدا کے قانون کو مکمل بالادستی حاصل ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو ہم سمجھتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ خدا کے قانون کی بالادستی کا مقصد بھی یہی ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ عملاً عوام کے پاس رہے۔دوسری بات یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ سے لے کر علامہ اقبال تک مسلسل تحقیق و جستجو کے بعد ہم پر ظاہر ہو چکا تھا کہ شریعت  واقعی قانونِ فطرت ہے۔ ہم اسے سائنٹفک طور پر قانونِ فطرت ثابت بھی کر سکتے تھے، جس کی اعلیٰ ترین مثال علامہ اقبال کے تشکیلِ جدید کے خطبات ہیں جن کا ذکر پانچویں، چھٹے، ساتویں اور آٹھویں باب میں ہے۔ یہی بات قراردادِ مقاصد میں یوں لکھی گئی کہ تمام کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ خدا کے پاس ہے۔ 
  8. اخوت، مساوات اور آزادی ہمارے مثالی اصول ہیں۔علامہ اقبال کے نزدیک توحید کی عملی روح اخوت، مساوات اور آزادی ہیں اور پیغمبرِ اسلامؐ کی بعثت کا مقصد پوری دنیا میں ان اصولوں کی ترویج تھا۔ 
  9. ریاست ہمارے مثالی اصولوں کے حصول کا عمل ہے۔ چونکہ توحید اور رسالت دونوں کے عملی پہلو اخوت، مساوات اور آزادی ہیں، اِس لیے ان اصولوں کو ترویج دینا ہمارے لیے بیک وقت ایک مذہبی فریضہ بھی ہے او ر سیاسی اقدام بھی ہے۔ ریاست ہمارے لیے اِسی عمل کا نام ہے نہ کہ کسی چیز کا۔ 
  10. ہم ایسی تمام ریاستوں کا اتحاد چاہتے ہیں جن کے مثالی اصول وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔   اسلام کا حقیقی مقصد نہ بہت سے ممالک کو ایک مرکزی حکومت کے تحت لانا ہے جیسا کہ ابتدائی زمانے میں تاریخی حالات کی وجہ سے کرنا پڑا۔ نہ ہی ایک دوسرے سے بیگانی ریاستوں کا قیام ہے۔ بلکہ اسلام خودمختار ریاستوں کا ایک خاندان ہے جن کے درمیان عقیدے اور اُصول کی بنیاد پر وحدت ہو۔

مکمل تحریر >>

جمعہ، 11 اگست، 2017

آج جھوٹ بولنے کا دن ہے

گیارہ اگست آئی۔ جھوٹ بولنے کا دن شروع ہوا۔ آج کچھ لوگ کہیں گے کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ یہ لوگ  اِس سوال کا جواب نہیں دیں گے کہ پھر قائداعظم نے کیوں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد بہت سی تقریروں میں یہ کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا۔ دوسری طرف سے کچھ لوگ قائداعظم کے اسلامی بیانات کو لے اُڑیں گے اور فرمائیں کہ چونکہ قائداعظم نے اسلام کا نام لیا اس لیے اسلام کے نام پر کچھ بھی پیش کر کے قائداعظم کے سر تھوپنا چاہیے۔ 
دونوں گروہ مل کر بعض سچائیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔

اُن سچائیوں کے تذکرے سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ جس کی کوشش حال ہی میں شروع ہوئی ہے۔نہ جانے کیوں بعض بزرگوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ قائداعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں وہ الفاظ کہے ہی نہیں تھے جن میں مسلمانوں اور غیرمسلمانوں کی برابری کا ذکر آتا ہے۔یہ درست نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی تقاریر کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے سلسلہ وار شائع بھی کی جاتی ہیں۔ قائداعظم کی تقریر پاکستان کی دستورساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ یہ اجلاس ۱۰ اگست سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ تک ہوا تھا۔ میری درخواست ہے کہ چاروں دنوں کی کاروائی غور سے پڑھیے تاکہ صرف دماغ ہی سے نہیں بلکہ دل سے بھی محسوس کر سکیں کہ ہمیں آزادی دینے والے ہمارے محسنوں کے کیا تاثرات تھے اور وہ اندرونی اور بیرونی مخالفین کے کیسے کیسے اوچھے ہتھکنڈوں سے نمٹنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ نیشنل اسمبلی کی ویب سائٹ پر چاروں ایام کی کاروائی علیحدہ علیحدہ پی ڈی ایف کی صورت میں دستیاب ہے: پہلا دن، دوسرا دن، تیسرا دن اور چوتھا دن۔

پاکستان میں سیکولرازم کی حمایت کرنے والے اور مخالفت کرنے والے مل کر جن سچائیوں پر پردہ ڈال رہے ہیں اُن میں سے پہلی یہ ہے کہ قائداعظم جس اسلامی نظام سے واقف تھے اُس کے مطابق ایک غیرمسلم بھی سربراہِ حکومت بن سکتا ہے۔ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود ریاست اسلامی رہتی ہے۔ صرف نام کی اسلامی نہیں بلکہ کام کی بھی۔ اسناد مختصر طور پر میری کتاب اسلامی سیاسی نظریہ میں موجود ہیں۔ تفصیل دیکھنی ہے اور واپس اُس دور میں جانا ہے جب پاکستان کا تصوّر تشکیل پا رہا تھا تو اقبال:دورِ عروج پڑھیے۔

لیکن یہ جھوٹ بولنے کا دن ہے اور میں جھوٹ کی جگمگاتی محفل میں آج سچ بولنے لگا ہوں۔ اس لیے فی الحال صرف یہی جان لیجیے کہ یہ ایک جھوٹ ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خاں اور مسلم لیگ نے اسلامی ریاست کا ا یسا تصوّر پیش نہیں کیا تھا جس میں ایک غیرمسلم سربراہِ حکومت بن سکتا ہو ۔

اب آئیے دوسرے جھوٹ کی طرف۔ جو لوگ سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں اور جو اس کے مخالف ہیں، دونوں متفق ہیں کہ سیکولر ریاست کوئی چیز ہوتی ہے۔ یہ بات تسلیم کرنے کے بعد ہی فریقین میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ قائداعظم سیکولر ریاست چاہتے تھے اس لیے پاکستان کو سیکولر ہونا چاہیے۔ دوسرا کہتا ہے کہ قائداعظم سیکولر ریاست نہیں چاہتے تھے اس لیے پاکستان کو سیکولر نہیں ہونا چاہیے۔

میرا دعویٰ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ سیکولر ریاست کسے کہتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ سیکولرازم سرے سے کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ یہ ایک مہمل کلمہ ہے جو بعض لوگ کسی ریاست کو پسند کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں، جیسے آپ "واہ" کہہ دیں۔ آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہو گا کہ کہ سیکولر ریاست وہ ہوتی ہے جہاں مذہب اور ریاست، یا کلیسا اور ریاست الگ الگ ہوتے ہیں۔ یعنی چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی کو سیکولر کہتے ہیں۔  یہ درست نہیں ہے کیونکہ برطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ ہی انگلستان کے چرچ کے سربراہ بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے پروٹسنٹنٹ ہونا بھی ضروری ہے۔ کوئی غیرعیسائی تو کیا کوئی غیرپروٹسنٹنٹ بھی وہاں بادشاہت نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود برطانیہ ایک "سیکولر" ریاست کہلاتی ہے۔ اس وجہ سے جو دلچسپ مباحث جنم لیتے ہیں، اُس کی مثال بی بی سی کا یہ مباحثہ ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ برطانیہ میں مذہب اور ریاست علیحدہ نہیں ہیں مگر پھر بھی برطانیہ ایک سیکولر ریاست ہے۔

میں نے بعض دوستوں سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ سیکولر ریاست سے مراد یہ ہے کہ ریاست کے کسی قانون کی بنیاد مذہب پر نہیں ہو گی۔ اول تو پاکستان کے عیسائی چیف جسٹس کورنیلئیس نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس مفروضے کی تردید کرتے ہوئے ایک برطانوی جج کا بیان پیش کیا تھا کہ آج برطانیہ میں جتنے بھی قوانین "سیکولر قوانین" کہلاتے ہیں اُن میں سےہر ایک کی بنیاد کسی نہ کسی مذہبی اصول پر ہے۔ صرف اتنا ہے کہ چونکہ وہ صدیوں سے رائج ہیں اس لیے اب قدم قدم پر مذہب کے حوالے نہیں دینا پڑتے۔ لوگوں نے انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔

ایک بالکل سامنے کی بات پر بھی غور کیجیے۔ بھارت نے اپنے آپ کو اِن معانی میں سیکولر قرار دے لیا ہے کہ قوانین کی بنیاد مذہب پر نہیں ہو گی۔ پھر بھی وہاں گائے ذبح کرنے کی قانونی ممانعت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خبر پڑھی تھی کہ کسی بھارتی عدالت میں ایک وکیل نے کہا کہ گائے ذبح کرنے کی ممانعت ایک مذہبی قانون ہے تو جج صاحب نے جھڑک دیا کہ خبردار، یہ ایک "سیکولر" قانون ہے کیونکہ جب ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمارا ہر قانون سیکولر ہے، آپ اُسے  مذہبی کیسے کہہ سکتے ہیں!

بہت خوب! اُفق سے سورج طلوع ہو رہا ہو اور کوئی کہے کہ ابھی رات ہے کیونکہ میری گھڑی بارہ بجا رہی ہے اور آج سورج کے طلوع ہونے کا وقت ساڑھے چھ بجے بتایا گیا ہے۔ جب پڑھے لکھوں کی مت ماری جائے تو یہی لطیفے ہوتے ہیں۔

اگر بھارت کے دستور میں یہ لکھ کر کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے، وہاں گائے ذبح کرنے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، تو پاکستان کے دستور میں یہ لکھنے سے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے، توہینِ رسالت پر سزائے موت کی سزا، شراب پر پابندی اور دوسرے بعض قوانین منسوخ کرنے کا جواز کیسے پیدا ہوگا جنہیں ہمارے سیکولر دوست "ریاست میں مذہب کی بیجا دخل اندازی" قرار دیتے ہیں؟

مؤدبانہ گزارش ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر ریاست چاہتے تھے، پہلے یہ بتا دیں کہ اس سے قائداعظم کی مراد کیا تھی؟ کیا اُن کی مراد تھی کہ پاکستان کا سربراہ ہمیشہ مسلمان ہو گا جیسا کہ انگلستان میں بادشا ہ اور ملکہ ہمیشہ پروٹسنٹنٹ ہوتے ہیں؟ کیا وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایسی چیزوں پر پابندی ہو گی جن سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوں، جیسا کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے؟ کیا پاکستان میں عیسائیوں کے لیے گلے میں صلیب لٹکانا منع ہو گی جس طرح فرانس میں ہے؟

جب ہمارے دوست خود ہی نہیں جانتے کہ سیکولر ریاست سے کیا مراد ہوتی ہے تو پھر یہ سب واویلا کس لیے ہے؟ قصور صرف سیکولرازم کے حامیوں کا نہیں ہے۔ دوسرا فریق بھی قصوروار ہے جو مذہب کے دفاع کے نام پر سیکولر کی مخالفت اس انداز میں کر رہا ہے جیسے سیکولرازم کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں بھی سیکولرازم کا مخالف ہوں لیکن اُس طرح جیسے قرآن شریف میں کفار سے کہا گیا کہ لات، منات اور عزیٰ محض نام ہیں جنہیں تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا۔ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح میری تحقیق نے مجھے بتایا ہے کہ سیکولرازم صرف ایک نام ہے جس کے کوئی معانی نہیں ہیں۔ یہ ایک بُت ہے جس کے سامنے رسماً سر جھکانے کے بعد خواہ آپ مذہب کے نام پر لوگوں کو زندہ جلائیں، انہیں گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کریں، خواتین کے لباس پر مذہبی نوعیت کے اعتراض کریں، آپ کے لیے ہر چیز کی اجازت ہے۔ صرف اس ایک دفعہ اِس بُت کے سامنے ماتھا ٹیک دیں۔ اس بت کے کسی بڑے پجاری سے اس کے نام کا ٹیکا اپنے ماتھے پر لگوا لیں۔

یہ کاروبار دنیا میں ایک دن بھی نہ چل سکتا اگر بدقسمتی سے اسلام کا دفاع کرنے والے اس کی مخالفت کرنے کے زعم میں اسے تقویت نہ دے بیٹھتے۔ انہوں نے تسلیم کر لیا کہ سیکولر ریاست کا کوئی وجود ہے اور سارا زور اس کی مخالفت میں لگا دیا۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ اسلامی ریاست کسے کہتے ہیں۔ اس لیے انہیں ایک آسان وظیفہ مل گیا کہ اسلامی ریاست اُسے کہتے ہیں جو سیکولر نہیں ہوتی۔

یہ درست ہے لیکن سیکولر تو کوئی ریاست بھی نہیں ہوتی۔ اسلامی ریاست کی علیحدہ سے تعریف بھی کرنی پڑے گی کہ کون سی چیز اسے اسلامی بناتی ہے اور کون سی چیز سے یہ اسلامی نہیں رہتی۔ہمارے یہاں اسلامی ریاست کا دم بھرنے والوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جو کچھ انہوں نے اپنی سمجھ بوجھ سے پیش کیا ہے وہ نہ قائداعظم کی تقاریر سے میل کھاتا ہے نہ اُس کا ہماری تاریخ سے کوئی تعلق ہے نہ وہ تحریکِ پاکستان چلانے والوں کے وہم و گمان میں کبھی تھا۔

اس لیے ہمارے یہاں اسلامی ریاست کا دفاع کرنےوالے یہ بات سمجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے کہ سیکولرازم ایک مہمل کلمہ ہے جس کے کوئی معانی نہیں ہے۔ اسے بامعنی تسلیم کرنے میں سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔ خود نہیں سوچنا پڑتا۔ جب بھی سیکولرازم کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ سیکولر ریاست ایسی ہوتی ہے، آپ کہہ دیتے ہیں کہ اسلامی ریاست تو ایسی نہیں ہوتی۔ اس طرح دونوں کا کام چلتا رہا ہے۔ صرف قوم کا کام رکا رہتا ہے، کیا حرج ہے۔

جھوٹ بولنے کا دن ایک دفعہ پھر آ گیا ہے۔ اِس پوسٹ کو پڑھنے کے بعدٹی وی چینلز پر دانشوروں کے کرتب ملاحظہ فرمائیے گا۔ بہت مزہ آئے گا۔   


   
مکمل تحریر >>

منگل، 8 اگست، 2017

صادق اور امین کی تلاش



صادق اور امین کے لیے قوم کی بیتابی مجھ سے نہ دیکھی گئی اور میں گھر سے نکلا کہ اگر کوئی صادق اور امین  مل جائے تو قوم کی خدمت میں پیش کر دوں۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ ہمارے معاشرے میں صادق اور امین بھرے پڑے ہیں۔
میں نے  ان میں سے کچھ کی تصویر بھی اپنے موبائل فون کے کیمرے سے اُتاری۔ یہ دیکھیے۔
 


یہ لوگ کراچی کے اُردو بازار میں صابری نہاری کے باہر فُٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں۔ انتظار میں ہیں کہ کب کوئی آئے اور پچاس روپے کا کھانا کھلادے۔ یہ صادق ہیں کیونکہ ان کی زبانِ حال  سوائے بھوک کے اور کچھ نہیں کہہ رہی ، اور بھوک سے بڑی سچائی ابھی تک دنیا میں ثابت نہیں کی جا سکی ہے۔ یہ امین بھی ہیں کیونکہ ان کے پاس روپیہ ہے ہی نہیں،  نہ اپنا اور نہ کسی دوسرے کا، جس میں خیانت کا سوال پیدا ہو۔

شام ہو جانے کی وجہ سے میں زیادہ اچھی تصویر نہ اُتار سکا اس لیے انٹرنیٹ سے حاصل  کر کے صادقوں اور امینوں کی ایک زیادہ واضح تصویر پیش کر رہا ہوں، شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات۔ 


ہم کسی صادق اور امین کو وزیرِاعظم بنانا چاہتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے تمام ارکان صادق اور امین ہوں؟ صوبوں کے  وزرائے اعلیٰ اور تمام عوامی نمایندے صادق اور امین ہوں؟ آئیے، اِن تصویروں میں جو لوگ دکھائی دے رہے ہیں اُن جیسے ہزاروں لاکھوں میں سے ہم اپنے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور نمایندے منتخب کریں۔

آنکھیں کھول کر دیکھیے، معاشرے میں اتنے صادق اور امین ہیں کہ فُٹ پاتھ  پر جگہ جگہ پڑے ہیں، آپ کے لیے انہیں ٹھوکر لگائے بغیر چلنا محال ہے۔

اِنہوں نے کبھی جھوٹی تعلیمی ڈگریاں پیش نہیں کی ہیں۔ کبھی ٹیکس چوری نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے آپ شبہ کریں کہ چھوٹی موٹی چوریاں کی ہوں گی لیکن اسلامی شریعت کی رُو سے چوری اور ڈاکے کی حد بھی ان پر قائم نہیں ہوتی ۔ حضرت عمر فاروقؓ کا فتویٰ ہے کہ قحط میں چوری کی حد نافذ نہیں کی جا سکتی۔ یہ لوگ عالمِ قحط ہی میں زندہ ہیں۔

یہ وہ بے بس ہیں جن کے بارے میں خدا کے رسولؐ کا حکم ہے کہ دن میں ستّر دفعہ ان کے قصور معاف کیے جائیں۔ یہ ہمارے وہ پڑوسی ہیں جن کے لیے رسولؐ نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور یہ بھوکے ہوں۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے  ہیں جیسے ہمیں رسولؐ کی بات کا اعتبار نہ ہو۔ کیا اِس لیے اب رسولؐ کے بعد کسی دوسرے "صادق اور امین" کی تلاش کی جا رہی ہے کہ وہ یقین دلا سکے کہ اگر یہ لوگ بھوکے رہیں تب بھی ہم مسلمان ہیں؟

جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کے لیے صادق اور امین حکمران چاہئیے تو ہم یہ بات گول کر جاتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے قائداعظم کی معنوی اولادیں ہی پاکستان کی جائز وارث ہیں۔ یہ بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان جو سڑکوں پر رُلتے ہیں، یہ ملک انہی کے نام لکھا گیا تھا۔

جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کرتے، ہم نہ صادق ہیں نہ امین ہیں۔ اس لیے ہمیں صادق و امین حکمراں بھی نہیں ملیں گے۔

وراثت تسلیم  کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روٹی، کپڑے اور مکان کا وعدہ کر کے ان سے ووٹ لیے جائیں۔ وہ ڈرامہ بہت بری طرح فلاپ ہو چکا ہے۔ انہیں وارث تسلیم کرنے کا مطلب ان سے ووٹ لینا نہیں بلکہ انہیں ووٹ دینا ہے۔

پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا، ہماری اجتماعی رائے ہی ہماری تقدیر ہے لیکن ہم اسے سمجھ نہیں پاتے۔ وجہ کیا ہے؟ اجتماعی رائے میں اِن بے گھر، بے سہارا لوگوں کے ارمان، ان کے خواب  بھی شامل ہیں۔ کسی کے ارمان اور خواب تب ہی معلوم کیے جا سکتے  ہیں جب اُس کی نازبرداری کی جائے۔ بھیک اور خیرات دینے سے کسی کے دل کی گہرائیاں ہم پر نہیں کُھل سکتیں۔

یہ ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی بہن ہیں۔ اِس بات کو تسلیم کیے بغیر ہم اپنی تقدیر کے مالک نہیں بن سکتے ۔  
مکمل تحریر >>