بدھ، 7 اکتوبر، 2015

اقبال اور جاوید

ڈاکٹر جاوید اقبال کی وفات پر چند روز گزر چکے ہیں لیکن شاید  مجھ جیسے بہت سے  ذہنوں کو یہ بات قبول کرنے میں خاصا وقت لگے گا۔
ڈاکٹر صاحب صرف ایک شخص نہیں تھے۔ وہ علامہ اقبال کی شاعری کا اہم کردار بھی تھے۔ علامہ نے اپنی شاعری میں اُنہیں آنے والی تمام نسلوں کے نمایندے کی حیثیت میں پیش کیا۔ ۱۹۲۴ء میں ڈاکٹر صاحب کی پیدایش کے بعد سے علامہ کی اکثر تصانیف میں اُن کا تذکرہ اِسی طور پر ہوا۔ جاویدنامہ کا عنوان اُنہی کے نام پر رکھ کر آخر میں اُن سے خطاب کو نئی نسل سے خطاب قرار دے کر اُن کی علامتی حیثیت متعین کی گئی۔ یہی علامتی حیثیت بالِ جبرئیل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں بار بار ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔
ویسے میری ذاتی تحقیق کے مطابق زبور عجم کی مشہور نظم یا گیت "از خوابِ گراں خیز" کے بارے میں بھی یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ علامہ نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی پیدایش کے موقع پر یا انہی دنوں لکھا گیا تھا۔ کیونکہ  علامہ کی بیاض میں یہ اُنہی تاریخوں کے درمیان درج ہے۔
بہرحال  ڈاکٹر جاوید اقبال کی پیدایش علامہ کے لیے وہ واقعہ تھی جس نے ان کے دل میں ایک ولولہ پیدا کر کے اُنہیں بانگِ درا سے اگلے مراحل کی شاعری کے لیے تیار کیا۔

اس لیے ڈاکٹر جاوید اقبال کی وجہ سے ہم یہ محسوس کر سکتے تھے جیسےہم کسی نہ کسی حد تک اقبال کے عہد ہی میں جی رہے ہیں۔ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کے ناموں میں "جاوید" اچانک عام ہو گیا جبکہ اُس سے پہلے اِس قدر عام نہیں تھا۔ قدم قدم پر سائن بورڈوں پر یہ نام دکھائی دینے لگا۔ ظاہر ہے کہ اس خطے میں انسانوں، دکانوں اور مکانوں کے ناموں میں اچانک اس کی کثرت ہو جانے میں اقبالیاتی عنصر ہی کارفرما تھا اور یہ صرف پڑھے لکھے لوگوں یا کسی ایک طبقے تک محدود نہیں تھا۔
ہم لوگ جو علامہ اقبال کی وفات کے بعد کے زمانے میں پیدا ہوئے، یہ نہیں جانتے کہ علامہ کی وفات کے وقت لوگوں نے ایک سہارا چھن جانے کا صدمہ کس طرح محسوس کیا۔ لیکن ڈاکٹر جاوید اقبال کی وفات ہمارے لیے کچھ ویسا ہی صدمہ ہے کیونکہ اس طرح علامہ اقبال کے ساتھ ہمارا ایک براہِ راست تعلق ٹوٹ گیا ہے۔ یہ بات  خوفزدہ کرنے والی ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر جاوید اقبال  کا اپنا علمی کام ایک طرح سے اقبال شناسی کے اُس کام کی علامت بھی ہے جو علامہ کی وفات کے بعد سے اب تک ہوا ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی اقبالیات کو تین شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: کلامِ اقبال کا متن، سوانحِ اقبال اور فکرِ اقبال کی تشریحات۔
علامہ اپنے کلام کے کاپی رائٹ ڈاکٹر صاحب کے نام کر گئے تھے۔ قانون کے مطابق علامہ کی وفات کے پچاس برس بعد یعنی ۱۹۸۸ء تک یہ حقوق ڈاکٹر صاحب کے پاس رہے۔۱۹۷۳ء میں ان کا ایک نیا ایڈیشن بھی سامنے آیا جس کے متن پر نظرِ ثانی غلام رسول مہر کے ساتھ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کی تھی۔ اسی موقع پر پہلی دفعہ "کلیاتِ اقبال اردو" اور "کلیاتِ اقبال فارسی" شائع ہوئیں۔ دونوں کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کا لکھا ہوا دیباچہ تھا اور چونکہ اگلے پندرہ برس تک صرف یہی ایڈیشن دستیاب تھے اس لیے میری عمر کے لوگوں کا کلامِ اقبال سے تعارف انہی ایڈیشنوں کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کے دیباچوں کے ساتھ ہوا۔
اِس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے علامہ کی ذاتی نوٹ بک ۱۹۶۱ء میں مدون کر کے شائع کی۔ انگریزی میں اس کا نام "اسٹرے ریفلکشنز" تھا۔ اُردو میں "شذرات فکرِ اقبال" کے عنوان سے ترجمہ بھی ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اس کا خصوصی ایڈیشن مرتب کرنے کا موقع ملا۔ اُس  پر ڈاکٹر صاحب کے نام کے نیچے بطور معاون اپنا نام دیکھ کر مجھے جو فخر محسوس ہوتا ہے وہ اپنی کسی کتاب پر بطور مصنف اپنا نام دیکھ کر نہیں ہوتا۔
علامہ کی سوانح "زندہ رُود" کی پہلی جلد ۱۹۷۹ء میں سامنے آئی۔ اُس زمانے میں کتب فروشوں کی دکانوں کے باہر اِس کے رنگین پوسٹر بھی دکھائی دیتے تھے۔ علامہ کی سوانح پہلے بھی لکھی گئی تھی مگر زندہ رُود نے تحقیق کے بلند معیار سے سب کو حیران کر دیا۔ اس کی دوسری اور پھر تیسری جلد کا انتظار کیا گیا۔ پانچ چھ برسوں میں مکمل ہوئی اور بعد میں آنے والوں کے لیے بنیاد بن گئی۔ یہ ابھی تک سب سےزیادہ جامع سوانح ہے جو علامہ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے پڑھ کر قاری خود بھی محقق بن جاتا ہے یا میرے ساتھ  یہی ہوا ۔ کیونکہ یہ علامہ اقبال کی پہلی سوانح تھی جو میں نے اسکول کے زمانے میں پڑھی تھی۔

علامہ اقبال کی فکر کی تشریحات پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے لیکچر دینے اور مقالات لکھنے کا آغاز شایدکیمبرج سے واپسی کے بعد کیا۔ اُن کا ایک مجموعہ مئے لالہ فام کے عنوان سے شائع ہوا۔ لیکن میری عمر کے لوگوں سے زندہ رُود کے بعد اُن کا دوسرا تعارف پاکستان ٹیلی وژن پر "جہانِ اقبال" کے عنوان سے لیکچروں کی سیریز کے ذریعے ہوا جو ۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط میں نشر ہوئی۔ خوش قسمتی سے یہ لیکچر کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی ہمیشہ زندہ رہنے والی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے ایک خاص طریقے سے علامہ اقبال کی فکر پر غور کرنے کا ذوق پیدا کیا۔ اُن کے انداز میں ایک توانائی اور علامہ کے ساتھ ایک جاندار تعلق تو محسوس ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے کہ سوچ بچار کے دروازے بند نہ کیے جائیں۔ انہوں نے ایک دو نسلوں کو یہ بات سکھائی کہ کس طرح علامہ کے ساتھ اپنا زندہ تعلق برقرار رکھتے ہوئے اپنی آزادانہ سوچ قائم رکھی جا سکتی ہے۔
ایسے مواقع پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم علامہ اقبال کے بیٹے کو اُس حیثیت میں دیکھ رہے ہیں جس میں وہ ایک عدالت کا ذمہ دار منصف ہے جو چاہتا ہے کہ ہر فریق کھل کر اپنا نقطہء نظر  بیان کرے اور فیصلہ انصاف کے مطابق ہو۔ یہ بہت بڑی بات تھی اور شاید یہ کام صرف اقبال کے بیٹے کے ہاتھوں ہی انجام پا سکتا تھا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اتنے طویل عرصے تک ہمارے درمیان رہ کر معاشرے کی تربیت کرتے رہے۔ خدا کرے کہ یہ روایت  بھی اُنہی کی طرح "جاوید" ہو جائے۔
مکمل تحریر >>