پیر، 9 نومبر، 2015

کیا علامہ اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا گیا؟

بچپن میں اکثر سنا تھا کہ علامہ اقبال نے نظم "شکوہ" لکھی تو مولویوں نے اُن پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ تحقیق کرنے پر  کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ اس کے برعکس "شکوہ" کے صرف ایک برس بعد ۱۹۱۲ء میں "شمع اور شاعر" سنانے سے پہلے علامہ نے جو تمہیدی کلمات کہے اُن سے کسی حد تک اس بات کی تردید ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا:
"جو نظم پچھلے سال لکھی تھی وہ شکوہ تھا اور اُس میں خدا سے شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اُسے برا خیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ میں نے بھی یہی خیال کیا لیکن تو بھی وہ اِس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف کے میرے پاس آچکے ہیں۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو کہ لوگوں کے دلوں میں تھی وہ ظاہر کر دی گئی لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ میرا شکوہ خدا کو بھی پسند آیا۔"
اِنہی الفاظ سے یہ مشہور بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ نظم "جوابِ شکوہ" علامہ کو صرف اِس لیے لکھنی پڑی کہ "شکوہ" پر بڑے اعتراض ہوئے تھے۔ اول تو "شکوہ" اتنی پسند کی گئی تھی کہ "جواب" لکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہے "شکوہ" کا جواب علامہ نے "شمع اور شاعر" کو قرار دیا تھا جو "شکوہ" کے ایک برس بعد پیش کی گئی۔ تیسری بات یہ ہے کہ "جوابِ شکوہ" نظم "شکوہ" کے قریباً پونے دو برس بعد لکھی گئی۔ شانِ نزول یہ تھی کہ جنگِ بلقان کے لیے چندہ اکٹھا کرنا تھا اور "شکوہ" کی مقبولیت کے پیشِ نظر توقع تھی کہ اُس کے "حصہ دوم" سے اس نیک کام میں بڑی مدد ملے گی۔ چنانچہ مشہور روایت کے برعکس "شکوہ" کی مقبولیت "جوابِ شکوہ" کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ "جوابِ شکوہ" میں علامہ نے جو کچھ کہا ہے وہی سب کچھ وہ پچھلے چار پانچ برسوں میں نظم و نثر میں کہتے آ رہے تھے۔

ان تمام حالات کی مستند تفصیلات آپ میری کتاب "اقبال: تشکیلی دور" میں ملاحظہ کیجیے جسے انٹرنیٹ سے مفت ڈاون لوڈ  کیا جا سکتا ہے۔ یہ علامہ کی زندگی کے ایک خاص زمانے یعنی ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۳ء کی مکمل ترین سوانح ہے لیکن اپنی جگہ ایک مکمل کتاب بھی ہے۔

اب آئیے کفر کے فتوے کی طرف۔ علامہ کے خلاف کفر کا صرف ایک فتویٰ موجود ہے جو روزنامہ زمیندار میں ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا۔ وہاں سے اسے عبدالمجید سالک نے علامہ کی سوانح "ذکرِ اقبال" میں شامل کیا۔ وہاں سے دوسری تصانیف میں منتقل ہوا جن میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی "زندہ رُود" بھی شامل ہے۔ اتفاق سے حال ہی میں "اقبال: دورِ عروج" مکمل کرتے ہوئے مجھے اپنے محترم دوست امجد سلیم علوی کی مہربانی سے زمیندار کے متعلقہ صفحات کا عکس ملا تو کچھ نئی چیزیں سامنے آئیں جنہیں "ذکرِ اقبال" میں بھی نہیں بتایا گیا اور وہ دوسری کتابوں میں بھی نظرانداز ہو گئی ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ فتویٰ مسجد وزیر خاں کے خطیب مولوی دیدار علی سے لیا گیا مگر مولوی صاحب نے اسے مشتہر نہیں کیا تھا۔ ایک شخص نے انہیں خط میں لکھا کہ اگر کوئی شخص ایسے ایسے اشعار کہے تو کیا وہ کافر ہے؟ ساتھ ہی علامہ کے بعض اشعار لکھ دئیے [ان میں "شکوہ" کا کوئی شعر شامل نہیں تھا]۔ جواب میں مولوی صاحب نے لکھا کہ جی ہاں، ایسے اشعار کہنے والا کافر ہے۔ یہ فتویٰ  روزنامہ زمیندار نے ایک تعارفی نوٹ کے ساتھ یہ کہہ کر شائع کیا کہ اس کی اصل اخبار کے دفتر میں محفوظ ہے۔

اب دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ "استفتا" یعنی فتویٰ لینے والے کے تفصیلی سوال میں کہیں علامہ کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ اس لیے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فتویٰ دیتے ہوئے مولوی صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ اشعار کس کے ہیں۔ غالباً انجانے میں انہوں نے فتویٰ دیا اور نہیں جانتے تھے کہ کس کے خلاف فتویٰ دے بیٹھے ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ اُن دنوں زمیندار کے مالک و مدیر مولانا ظفر علی خاں اپنے نائب غلام رسول مہر کے ساتھ ملک سے باہر تھے۔ اخبار کا کام نوجوان ادارت کا تمام کام عبدالمجید سالک نے سنبھال رکھا تھا جن کی زندہ دلی  مشہور تھی۔ وہ اور زمیندار کا ادارہ ان دنوں سلطان ابن سعود کی حمایت کر رہے تھے جبکہ مولوی دیدار علی سمیت بریلوی صاحبان اکثر سعودیوں کے مخالف تھے۔ مولوی صاحب ویسے بھی کفر کے فتوے دینے میں مشہور تھے۔ یوں لگتا ہے کہ زمیندار کے ادارے نے مولوی صاحب کو شرمندہ کرنے کے لیے اس طرح اُن سے فتویٰ لیا کہ ایک فرضی نام سے سوال بھجوایا گیا۔ سوال میں علامہ کا نام نہیں لیا گیا۔ علامہ کے مشہور ترین اشعار کی بجائے بعض ایسے اشعار لکھے گئے جو صرف کتابوں اور رسالوں میں شائع ہوئے تھے، جلسوں میں نہیں پڑھے گئے تھے۔ فتویٰ حاصل کر کے اس لیے شائع کیا گیا کہ علامہ اقبال اُس وقت ہندوستان کے اُن چند مسلمانوں میں سے تھے جن کے خلاف کفر کے فتوے کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اس طرح فتویٰ لے کر دراصل مولوی صاحب کے ساتھ ایک طرح کا مذاق کیا گیا کہ یہ تو علامہ اقبال کو بھی کافر کہہ رہے ہیں، اس لیے ان کے باقی فتوے بھی غلط ہوں گے۔ اس کے بعد زمیندار میں ایک طویل مضمون مولوی صاحب کے فتوے کے خلاف شائع ہوا جس میں علامہ کے اشعار کی تشریح کر کے ان کا دفاع کیا گیا تھا۔ یہ مضمون اگرچہ مصنف کے نام کے بغیر شائع کیا گیا مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ علامہ کے خاص الخاص شاگرد چودھری محمد حسین سے لکھوایا گیا تھا۔

بظاہر یہ اس فتوے کا اصل پس منظر معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ فتویٰ شائع ہونے کے بعد مولوی دیدار علی صاحب نے بھی کوئی بیان دیا۔ ویسے یہ معلوم ہے کہ چار برس بعد غازی علم الدین کی نمازِ جنازہ کے موقعے پر علامہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے انہی کا نام تجویز کیا تھا۔ میرا اپنا خیال یہی ہے کہ اگر مولوی صاحب کو معلوم ہوتا کہ اُن سے جن اشعار پر رائے لی جا رہی ہے وہ علامہ اقبال کے ہیں تو شائد وہ کفر کا فتویٰ نہ دیتے۔

اِس قصے کی باقی تفصیل میری آیندہ کتاب "اقبال: دورِ عروج" میں پڑھی جا سکتی ہے، جسے میں آج کل مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ جلد ہی دستیاب ہو گی۔

اضافہ: "اقبال: دورِ عروج" مکمل ہو چکی ہے اور ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔

2 تبصرے:

Absar Ahmed نے لکھا ہے کہ

خرم بھائی آپ نے ایک مفروضہ کو لایعنی کردیا ہے ، زندہ باد

Unknown نے لکھا ہے کہ

تحریر سے سابقہ قدیم مفروضات متعلق بہ علامہ ضرور باطل ہو ثابت ہو رہے ہیں ۔۔۔۔لیکن اس حجت کی تکمیل بغیر دلیل کافی نہیں ۔۔۔۔اس لیے ہم جیسے ادب کے طالب علموں کو اپ کی تفصیلی تحریر کا شدت سے اینتظار رہے گا ۔۔۔۔۔اللہ اپ کی اس تحقیقی کاوش کو پایے تمام پہنچائے۔۔۔۔۔۔کیوں کہ مسئلہ کافی دل چسپ بھی ہے تاکہ مولویوں کے سر سے علامہ کی تخرےب ذات کا الزام بھی شاید اس سے کچھ ہلکا ہو سکے۔۔۔۔۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔