منگل، 24 نومبر، 2015

جمیل الدین عالی اور قرآن

مولانا روم، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور علامہ اقبال تین شاعر ہیں جن کی شاعری کے بارے میں خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ قرآن شریف سے ماخوذ ہے۔ چند برس پہلے میں نے اس فہرست میں ایک اور نام کے اضافے کی تجویز پیش کی تھی: جمیل الدین عالی۔ اس موضوع پر میرا مقالہ "جمہوری ادب" کے عنوان سے اقبال اکادمی پاکستان کے تحقیقی مجلے اقبالیات میں شائع ہو چکا ہے۔
سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ قرآن شریف سے متاثر ہونے والا ادب کبھی غیردلچسپ نہیں ہوتا۔ اس میں  وعظ و نصیحت کی ایسی بھرمار بھی نہیں ہوتی جو طبیعت پر بوجھ ڈالے۔  کیونکہ قرآن ہمیشہ "خیالات" سے زیادہ "عمل" پر زور دیتا ہے۔ 

مثنوی مولانا روم کے بارے میں کہا گیا کہ "فارسی میں قرآن" ہے۔ اسی مثنوی میں ایسی ایسی دلچسپ حکایات ہیں کہ آج تک لطیفوں کے طور پر سنائی جا رہی ہیں اور سنانے والوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ رُومی کی حکایت ہے۔
بھٹائی نے اپنے بارے میں دعویٰ کیا کہ اُن کے مصرعوں میں قرآن کے موتی چمک رہے ہیں۔ لیکن انہی مصرعوں نے عشق و محبت کی وہ داستانیں ہمیں عطا کی ہیں جن کے نام اور حوالے ہمارے  رومانی ادب کی جان ہیں، جیسے سوہنی مہینوال اور سسی پنہوں وغیرہ۔
علامہ اقبال کی شاعری اپنے زمانے میں صرف خواص ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی مقبول تھی۔ اُن کے بارے میں اُردو میں پہلی باقاعدہ تصنیف جو ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی اُس میں اُن کی مقبولیت کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اُن کی شاعری بہت "رنگین" ہے۔ اس میں عشقیہ شاعری کے استعارے موجود ہیں۔ علامہ نے صرف انہیں قوم کی محبت کی طرف موڑ دیا ہے۔ وہ زندہ تمنا "جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے" ہمیشہ عاشق کے دل میں ہوتی تھی۔ علامہ نے "دلِ عاشق" کی بجائے "دلِ مسلم" کہہ کر  نظم کی تاثیر بدل دی مگر نظم کی رنگینی کم نہ ہونے دی۔
جمیل الدین عالی کے یہاں بھی ہمیں ایسے بہت سے شاہکار ملتے ہیں جو بالکل انہی مثالوں کی طرح عوام میں مقبول ہوئے اور بالکل انہی شاعروں کے کلام کی طرح وہاں بھی قرآنی تلمیحات اور قرآن شریف کے اثرات بڑے واضح ہیں۔

اس کی ایک مثال اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوسرے اجلاس کے موقع پر لکھا گیا ترانہ "ہم مصطفوی ہیں"۔ یہ ترانہ بیحد مشہور ہے لیکن عام طور پر ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ صرف دوسری سربراہی کانفرنس سے منسوب تھا۔ یا صرف پی ٹی وی کی پیشکش تھا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک سے موصول ہونے والے ترانوں میں سے اسے منتخب کر کے باقاعدہ قرارداد کے ذریعے کانفرنس کے مستقل ترانے کے طور پر منظور کیا گیا تھا۔ آج بھی جب کبھی کانفرنس کا اجلاس ہوتا ہے، کم سے کم اس کا سازینہ ضرور ترانے کے طور پر بجایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ اسلامی سربراہی کانفرنس کا سرکاری ترانہ ہے اس لیے ہم اسے عالمِ اسلام کا قومی ترانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم  اتنے غافل ہوں  کہ ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ دورِ حاضر میں عالمِ اسلام کا ایک قومی ترانہ بھی ہے۔
معنویت کے لحاظ سے یہ ترانہ اس قابل ہے کہ اس کی تشریح میں پوری پوری کتابیں لکھی جائیں۔ میں صرف اس کے پہلے بند کے حوالے سے بعض اشارے پیش کروں گا جن کا تعلق قرآن شریف سے ہے۔ اُس بند کے مصرعے ہیں:
سبحان اللہ، سبحان اللہ، یہ وحدت فرقانی
روحِ اخوت، مظہرِ قوت، مرحمتِ رحمانی
سب کی زباں پر سب کے دلوں میں اک نعرہ قرآنی
اللہ اکبر، اللہ اکبر
سب سے پہلے یہ غور کیجیے کہ تینوں مصرعوں کے ہم قافیہ الفاظ قرآن سے متعلق ہیں: فرقانی، رحمانی اور قرآنی۔ ہم جانتے ہیں کہ فرقان، قرآن شریف کا لقب ہے اور  رحمان اسے نازل کرنے والے کا صفاتی نام ہے۔ اب اس بات کی داد دیجیے کہ یہ الفاظ جو قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ان میں سے ہر لفظ یہاں مسلمانوں کے اجتماع کی کوئی نہ کوئی صفت بیان کر رہا ہے۔
اُن کی وحدت "فرقانی" ہے۔ یعنی ویسے تو وحدت کا مطلب ہے فرق ختم ہو جانا مگر یہ وحدت حق و باطل کا فرق قائم بھی کر دیتی ہے اس لیے "فرقانی" یعنی فرق قائم کرنے والی ہے۔ چونکہ یہ وحدت قرآن کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جس کا لقب فرقان ہے، اس لیے بھی یہ فرقانی وحدت ہے۔
یہ وحدت ہماری  اخوت کی روح کو بیان کرتی ہے مگر ہماری اخوت کی روح کیا ہے؟ ہماری اخوت وقت کے ساتھ کوئی بھی روپ اختیار کر سکتی ہے مگر اُس کی "روح" یعنی اُس کی اصل وہی واقعہ رہے گا جسے قرآن شریف میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے احسان کو یاد کرو۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ اس طرح یہ "روحِ اخوت" ہمیں رحمان کی طرف سے مرحمت ہوئی ہے، وہی رحمان جس نے قرآن کی تعلیم دی۔ اُسی نے ہمیں روحِ اخوت بھی عطا فرمائی۔
اس لیے ہم سب کی زبانوں پر اور دلوں میں قرآن سے نکلا ہوا ایک نعرہ ہے یعنی اللہ اکبر۔ یہ نعرہ صرف ہماری زبانوں پر نہیں بلکہ دلوںمیں ہے کیونکہ دل کی گہرائیوں میں ہم اُس روحِ اخوت کو محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم خدا کی بڑائی کے قائل ہو رہے ہیں۔ لیکن اُس کی بڑائی کا اعتراف ہم جن الفاظ میں کرتے ہیں وہ ہمارے اپنے نہیں ہیں بلکہ وہ  قرآن ہی کے الفاظ ہیں۔ البتہ وہ ہمارے دلوں سے نکل کر زبان پر آ رہے ہیں جیسے قران ہم پر دوبارہ نازل ہو رہا ہو۔
ان تمام نکات کی خوبی یہ ہے کہ ان میں قرآن اور مسلمان کے باہمی تعلق کے بارے میں ایسی بہت سی باتیں دہرائی گئی ہیں جن کی نشاندہی علامہ اقبال نے کی تھی۔ مثلاً علامہ نے کہا تھا کہ مومن اگرچہ قاری نظر آتا ہے مگر حقیقت میں قرآن ہے۔ اسی طرح یہاں قرآن سے متعلق الفاظ مسلمانوں پر منطبق ہو رہے ہیں۔
اِس کے علاوہ علامہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن اس طرح پڑھنا چاہئیے جیسے یہ ہم پر دوبارہ نازل ہو رہا ہے۔ یہ دراصل علامہ کے والد کی نصیحت تھی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اِس بند میں عملاً ہمیں ایک ایسے ہی تجربے سے روشناس کروایا جا رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ وہ تمام شاعر جن کا تخلیقی وجدان قرآن شریف سے متاثر ہوتا ہے، وہ صرف قرآن میں پیش کیے ہوئے احکامات ہی نہیں دہراتے بلکہ اُن سے پہلے اِس سلسلے کے شاعروں  نے جو کچھ بیان کیا ہوتا ہے، وہ اُس کا احاطہ بھی کر لیتے ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ شعوری طور پر ہو۔ بلکہ یہ بھی اُس تخلیقی وجدان ہی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔

عالی خود بھی ماضی کے بعض شعرا کے ساتھ بالکل ایسے ہی ایک تعلق کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  مثلاً ایک جگہ کہتے ہیں، "تم پہ جو کچھ لکھا شاعروں نے اُس میں شامل ہے آواز میری۔" ایک اور جگہ کہتے ہیں، "شاہ لطیف سے برکت پائیں۔ علن اور عالی کی دعائیں۔" ایک جگہ پاکستان کو "اقبال کا اِلہام" قرار دیتے ہیں۔
جمیل الدین عالی کی شاعری میں قرآنی اثرات کی یہ صرف ایک مثال تھی جو "ہم مصطفوی ہیں" کے ایک بند کے حوالے سے پیش کی گئی۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں اور صرف اُن کے مقبولِ عام قومی گیتوں ہی میں قرآن شریف کی اتنی تلمیحات غیرمحسوس طریقے پر موجود ہیں جن پر مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً "جیوے پاکستان" کا مصرعہ شاید ہر شخص کو یاد ہو، "جھیل گئے دُکھ جھیلنے والے اب ہے کام ہمارا۔" اِس مصرعے کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن شریف کی وہ آیت یاد کیجیے جس میں کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آبا و اجداد کچھ لوگ تھے جو گزر گئے، اُن کے اچھے اعمال اُن کے ساتھ ہیں۔ تمہیں اُس کا صلہ دیا جائے گا جو تم کرو گے۔
مزید مطالعے کے لیے میرا مقالہ "جمہوری ادب" ملاحظہ فرمائیے:

1 تبصرے:

Absar Ahmed نے لکھا ہے کہ

عالی جی کے کلام کی ایک اور قرآنی تلمیح
" اک تارِ آہنی ہے ملت کے پیراہن میں
اک خوشنما اجاٖہ قوموں کی انجمن میں "
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں فرمایا ہے جس کا مفہوم ہےکہ اللہ اپنے دین کی سربلندی کے لیے امم میں اضافے کی شکل میں ایک نئی اور طاقتور قوم لے آتا ہے جو ارادوں اور عمل میں مضبوط ہوتی ہے ، یہی حال قام، پاکستان کے وقت جذباتِ اسلامیہ کا تھا پھر اللہ ایک جگہ فرماتا ہے کہ مومنوں کے لیے ایک بڑا انعام یہ بھی ہے کہ ہم نے انہیں سر چھپانے کے لیے زمین کا خطہ عطاء کیا جس پر عالی نے تلمیح وضع کرتے ہوئے
اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا"
بھی تحریر کیا ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔