جمعرات، 26 نومبر، 2015

پاکستان کا مطلب کیا؟


"آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد تمام انسانیت میں اخوت، مساوات اور حریت کی بنیاد رکھنا اوراُنہیں پروان چڑھانا تھا۔" یہ علامہ اقبال کی مثنوی کے دوسرے حصے "رموزِ بیخودی" کے ایک باب کے عنوان کا ترجمہ ہے جو ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ ان تینوں اصولوں یعنی اخوت، مساوات اور حریت کی وضاحت میں سے ہر ایک کی وضاحت کے لیے ایک علیحدہ باب اس میں موجود ہے۔


اس کے قریباً بیس برس بعد جب علامہ نے  انگریزی میں وہ لیکچر دئیے جو "ری کنسٹرکشن" یعنی "تشکیلِ جدید" کے عنوان سے بیحد مشہور ہوئے تو چھٹے لیکچر میں ریاست کے اسلامی تصوّر کی وضاحت کرتے ہوئے پھر کہا، "ایک عملی تصوّر کے طور پر توحید کی روح مساوات، اخوت اور حریت ہے۔" اخوت کے لیے انگریزی میں عام طور پر “fraternity” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے بھائی چارہ۔ لیکن علامہ نے اس کے لیے “solidarity” کا لفظ استعمال کیا۔ عام طور پر ہم اس کا ترجمہ یکجہتی کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں علامہ نے یہ لفظ اخوت ہی کے معانی میں استعمال کیا تھا۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ "رموزِ بیخودی" میں مکمل وضاحت موجود ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اخوت، مساوات اور حریت کی ترویج تھا۔



یہ مت سمجھیئے کہ یہ علامہ کا ذاتی خیال تھا اور عام مسلمان اس طرح نہیں سوچتے تھے۔  اگر آپ میری کتاب "اقبال: درمیانی دور" پڑھیں تو  خوشگوار حیرت سے دوچار ہوں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء کے دوران صرف آٹھ برس کے عرصے میں پوری اسلامی دنیا پستی اور زوال کی انتہا سے نکل کر دوبارہ عروج پر فائز ہو گئی اور وجہ یہی تھی کہ پورے عالمِ اسلام میں کسی نہ کسی وجہ سے توحید کا یہی مفہوم عام ہو رہا تھا۔ 
۱۹۱۴ء میں جب پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی تو مسلم ریاستیں یورپ کی غلامی میں تھیں یا بدحال اور کمزور تھیں۔ ۱۹۱۸ء میں جنگِ عظیم کے خاتمے پر یورپ بدحال اور کمزور ہو چکا تھا۔ اگلے چار برسوں میں پورے عالمِ اسلام میں ایک نئی زندگی کی لہر دوڑ چکی تھی۔ ترکی نے یورپی حملہ آوروں کو نکال باہر کیا۔ افغانستان نے برطانوی مداخلت مسترد کر کے کامل آزادی کا اعلان کر دیا۔ ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہو  گیا۔ ہندوستان میں تحریک خلافت نے مسلمانوں کو زندہ قوم ہونے کا احساس دلا کر برطانوی استعمار سے ٹکر لینے کا حوصلہ بخشا۔ شمالی افریقہ میں ریف کی خودمختار ریاست قائم ہوئی جس کے بانی عبدالکریم  نے مٹھی بھر سپاہیوں کی مدد سے ہزاروں اسپینی حملہ آوروں کو شکست دے دی۔
یہ عبدالکریم  جس کی فتح کے لیے دہلی کی جامع مسجد میں  دعائیں مانگی جاتی تھیں  اور جسے ماوزے تُنگ اور چیگوویرا اپنا ہیرو مانتے تھے، آج ہم  میں سے اکثر نے اس کا نام بھی نہیں سنا۔

 ہم آج بھی  "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ"  کا تذکرہ یوں کرتے ہیں جیسے اُن میں کھینچی ہوئی مایوسی اور زوال کی کیفیت ابھی تک ختم ہی نہیں ہوئی۔ حالانکہ وہ ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۲ء کی نظمیں ہیں۔ وہ کیفیت ۱۹۲۲ء میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد علامہ نے "خضرِ راہ" اور "طلوعِ اسلام" جیسی نظمیں لکھ کر بتایا  کہ ہمارا سنہری  زمانہ واپس آ چکا ہے:
اگلے تیس برس مسلمانوں کے  سیاسی، علمی، تہذیبی، عروج کا زمانہ تھے۔ ۱۹۵۳ء میں کیمبرج یونیورسٹی کے مشرقی علوم کے ماہر اے جے آربری نے "رموزِ بیخودی" کا انگریزی میں ترجمہ کیا تو پیش لفظ میں رو رو کر دہائی دی کہ  اسلامی دنیا میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک پوری نسل تیار ہو چکی ہے جس کے نزدیک توحید کے معانی اخوت، مساوات اور آزادی ہیں۔ اگر یہ رجحان ختم نہ کیا گیا تو مغرب کی اخلاقی برتری ختم ہو جائے گی۔ پھر نہ سوئز کنال قبضے میں رہے گی نہ مشرقِ وسطیٰ کا تیل۔ یورپ واپس "تاریک دور" میں چلا جائے گا۔ ایشیا پھر تہذیب سکھانے پر مامور ہو جائے گا۔ خدا کے لیے مسلمانوں کو یقین دلاو کہ اخوت، مساوات اور آزادی مغربی تصورات ہیں۔ ان کی علامت صرف فرانس کا جھنڈا ہے، پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔
کیا ہم اِسے محض اتفاق سمجھیں کہ ٹھیک اُسی برس ہر مسلمان ملک میں ایسی تحریکیں شروع ہو گئیں جنہوں نے جمہوریت کا راستہ روکا؟ اِسلام کے نام پر تشدد، عدم رواداری اور روایت پرستی کے وہ تصورات پیش کیے گئے جو پچھلے تیس برس کی جدوجہد میں کبھی نہیں سنے گئے تھے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کا مطلب بدل گیا۔ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں نعرہ لگایا گیا تھا، "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الااللہ"۔ ۱۹۵۴ء میں حکومت پر قابض ٹولے نے "منیر رپورٹ" شائع کر کے اس کی تردید کی۔
تصویر بشکریہ عقیل عباس جعفری
آج کل بعض حلقوں کی طرف سے یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ یہ نعرہ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں نہیں سنا گیا بلکہ بعد کی ایجاد ہے۔ اس غلط فہمی کے بانی بھی وہی صاحب ہیں جنہوں نے منیر رپورٹ لکھی۔ خوش قسمتی سے دستاویزی ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ یہ نعرہ قیامِ پاکستان سے پہلے موجود تھا۔ مثلاً ۱۹۴۷ء میں چھپی ہوئی قومی ترانوں کی ایک ایسی کتاب موجود ہے جس میں اصغر سودائی کی وہ نظم شامل ہے جس میں یہ نعرہ استعمال ہوا ہے۔
آج ہم پاکستان میں جو خرابیاں دیکھتے ہیں اُن کی وجہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کا مطلب "لا الٰہ الا اللہ" سمجھ لیا ہے۔ میرے خیال میں ہم نے پاکستان کا مطلب ٹھیک سمجھا ہے مگر "لا الٰہ الاللہ" کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اُسی شخص کی بات بھلا ئے بیٹھے ہیں جس نے پاکستان کا تصوّر پیش کیا تھا۔ اگر ہم "اَیپل" کمپیوٹر خرید کر اُس پر "وِنڈوز" پروگرام چلانے کی کوشش کریں جو "اَیپل" کے لیے نہ ہوں تو کیسے چلیں گے؟ پاکستان ہم سے نہیں چلایا جا رہا تو حیرت کی بات نہیں۔
مفکرِ پاکستان کے نزدیک لا الٰہ الااللہ کے عملی پہلو کی روح اخوت، مساوات اور آزادی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم مغربی افکار قبول کریں یا مغرب کی تقلید کریں۔ بلکہ جیسا کہ آربری صاحب نے گھبرا کر لکھا تھا، مطلب اس کے برعکس دکھائی دے رہا تھا۔ یعنی اب ان اصولوں کے وارث ہم ہیں۔ کوئی اور نہیں۔


مغرب میں یہ تینوں الفاظ سب سے زیادہ فرانس کے  جھنڈے کے ساتھ منسوب  ہیں۔ وہی جھنڈا جسے پیرس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کروڑوں لوگوں نے جن میں مسلمان بھی شامل تھے، فیس بک پر دوپٹے کی طرح اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا۔ لیکن  خود فرانس نے کیا کیا؟ اُن معصوم بچوں کی لاشوں کی تصاویر بھی ہم نے دیکھیں جنہیں کسی نامعلوم دہشت گرد تنظیم نے نہیں بلکہ فرانس کی ذمہ دار حکومت نے موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔ وہی حکومت جسے فرانسیسی شہریوں کی حمایت حاصل ہے۔ جو جمہوری حکومت ہے۔ کیا اس طرح اخوت، مساوات اور آزادی کی ترویج کی جاتی ہے؟
پاکستان حاصل کرتے ہوئے ہم نے کہا، "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الااللہ"۔ کیوں نہ پاکستان کی تعمیر کرنے کے لیے اُسی لا الٰہ الااللہ کے عملی پہلو پر توجہ دی جائے۔ کیوں نہ کہا جائے کہ پاکستان کا مطلب اخوت، مساوات اور آزادی ہے کیونکہ توحید کے عملی پہلو کی رُوح یہی اصول ہیں۔ 

2 تبصرے:

Ahmad Safi نے لکھا ہے کہ

سو فیصد متفق:
"کیوں نہ کہا جائے کہ پاکستان کا مطلب اخوت، مساوات اور آزادی ہے کیونکہ توحید کے عملی پہلو کی رُوح یہی اصول ہیں۔ "

Absar Ahmed نے لکھا ہے کہ

خرم بھائی زندہ باد آپ نے مفاد پروستوں اور مغرب کے بے جا نوازوں کو اچھا اور بھرپور جواب دیا ہے، اور ساتھ ساتھ اسلامی روح کے ساتھ کلمہ طیبہ کا وسیع مفہوم پیس کیا ہے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔