جمعہ، 11 ستمبر، 2015

فرض شناسی

یہ میری کتاب "سمندر کی آواز سنو" کا ایک اقتباس ہے۔ درسی کتابوں کے سلسلے "کتابِ اُردو" کی چھٹی جماعت کی کتاب میں ایک سبق کے طور پر بھی شامل ہے۔ "سمندر کی آواز سنو" ۱۹۹۳ء میں دیا پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کی تھی۔ "کتابِ اُردو" حال ہی میں ٹاپ لائن پبلشرز کراچی نے شائع کی ہے۔

رات کے سائے اُس خوبصورت عمارت پر چھائے ہوئے تھے جو ایک پرفضا پہاڑی مقام پر واقع تھی۔ اس کے تمام کمروں کی روشنیاں بجھی ہوئی تھیں حتیٰ کہ اُس کمرے کی روشنی بھی جہاں قائداعظم اُس وقت موجود تھے۔
وہ آج بے چین تھے مگر اب اُن کے جسم میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کمرے میں چہل قدمی کر کے بے چےنی کے لمحے گزار سکیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اُن کے پھیپھڑے بدترین ٹی بی کا شکار ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے قائداعظم سے یہ بات چھپانی چاہی تھی کہ اب اُن کی زندگی کے چند روز باقی ہیں مگر قائداعظم سمجھ چکے تھے۔
اُن کا نیم جان جسم بستر پر پڑا تھا مگر اُن کا ذہن اب بھی اُتنا ہی طاقتور تھا۔ وہ اُن مسائل کے متعلق سوچ رہے تھے جو اُن کی تخلیق کردہ مملکت اور اُن کی قوم کے لوگوں کو گھیرے ہوئے تھے۔ ابھی تک آئین نہیں بنا تھا۔ معاشرے میں پچھلے دَور کی برائیاں ابھی باقی تھیں۔ رشوت، سفارش، افسر پرستی، بدعنوانی، نااِنصافی، اِن سب چیزوں کا خاتمہ ہونا باقی تھا۔ کشمیر ابھی تک دشمنوں کے پنجے میں تھا۔ اِن مسائل کو حل کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟ ہوس پرست سیاستداں جن کے چہرے آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہے تھے اِس ملک کے مسائل کیسے حل کریں گے؟ مہاجرین پوری طرح آباد نہیں ہوئے تھے۔ غریب آج بھی غریب تھے۔ امیر، امیرتر ہوتے جا رہے تھے مگر سماجی انصاف کا وہ خواب جو قائداعظم نے دیکھا تھا اُس کی تعبیر بہت دُور تھی۔
 کاش اُن کے جسم میں طاقت ہوتی کہ وہ اُن کے ذہن کا ساتھ دے سکے جو آج بھی پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکتا تھا۔
اگلی صبح لیڈی کمپاونڈر نے اُن کا ٹمپریچر لیا تو اُنہوں نے پوچھا، ”میرا ٹمپریچر کیا ہے؟“
”جناب! یہ بات میں صرف ڈاکٹر صاحب کو بتا سکتی ہوں،“ لیڈی کمپاونڈر نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔
”لیکن مجھے اپنا ٹمپریچر معلوم ہونا چاہیے۔“
”مجھے افسوس ہے جناب، میں آپ کو نہیں بتا سکتی،“ لیڈی کمپاونڈر یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔
قائدِاعظم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اُنہوں نے فاطمہ سے کہا جو قریب ہی کھڑی تھیں، ”مجھے ایسے لوگ پسند ہیں جو اپنی بات پر ڈٹے رہیں اور کسی کے دَباو میں نہ آ سکیں۔“
کچھ دیر وہ فاطمہ کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”فاطی! تم ٹھیک کہتی تھیں۔ مجھے بہت پہلے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے مشورہ کر لینا چاہیے تھا۔“
فاطمہ نے اپنی آنکھوں میں ہلکی سی نمی محسوس کی۔
”لیکن مجھے افسوس نہیں ہے،“ قائداعظم نے اُن کے چہرے سے نظریں ہٹا کر خلا میں دیکھتے ہوئے کہا۔ اُن کے چہرے پر ماضی کی ساری عظمت عود کر آئی۔ ”میں نے ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کیا۔ زندگی بھر میرا یہی اصول رہا ہے۔“

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔