اتوار، 20 ستمبر، 2015

منٹُو: ایک قاری کا ذہنی سفر

عام طور پر  "منٹو" کے نام کا جو تلفظ کیا جاتا ہے، وہ میری اطلاع کے مطابق درست نہیں ہے۔ مجھے ڈاکٹر انور سجاد نے بتایا تھا کہ منٹو نے اُن سے خود کہا کہ صحیح تلفظ "منٹُو" ہے ، "جیسے وَن ٹُو"۔ وضاحت کرتے ہوئے منٹُو نے دوسرے کشمیری ناموں کی مثالیں دیں جیسے نہرو، سپرو۔ مممکن ہے  کہ منٹُو کی بجائے منٹو رائج ہونے کی وجہ یہ رہی  ہو کہ ہندوستان کے ایک سابقہ  وائسرائے کا نام مِنٹو تھا جس کی بہت سی یادگاریں موجود تھیں، جیسے لاہور کا مِنٹو پارک۔
بچپن میں جب میں نے یہ پڑھا کہ ۱۹۴۰ء میں قراردادِ پاکستان لاہور کے مِنٹو پارک میں منظور ہوئی جسے اب علامہ اقبال پارک کہتے ہیں تو پہلے پہل میں یہی سمجھا کہ اُس وقت  پارک کا نام  سعادت حسن  کے نام پر رکھا ہوا تھا۔اس لیے میں نے "سعادت حسن مِنٹو" کہنا شروع کیا جس پر والد صاحب نے ٹوکا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ  پارک کسی اور  شخصیت کے نام پر تھا اور منٹُو کی زندگی میں سرکار نے اُن کی عزت افزائی کسی اور  طرح کی تھی۔
میرے والد صاحب منٹُو کے مداح تھے۔ لیکن مجھے بچپن سے مطالعے کا شوقین ہونے کے باوجود ایک عرصے تک منٹو کو پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آٹھویں جماعت میں ایک دفعہ اپنی پسند کی کچھ کتابیں خریدتے ہوئے منٹُو کے افسانوں کے مجموعے "بغیر اجازت" پر نظر پڑی۔ یہ مری کی مال روڈ کا تذکرہ ہے اور میں  ہاسٹل میں مقیم تھا۔ شاید والد صاحب کی یاد ستا رہی تھی جو میں نے اپنی پسند کی کتابوں کے ساتھ منٹُو کا مجموعہ بھی خرید لیا۔
ہاسٹل پہنچا تو مجھ سے دو سال سینئیر لڑکے نے جس سے میری دوستی مطالعے کے یکساں جنون کی وجہ سے تھی، کتاب  دیکھ کر  جھجھک اور  تجسس کے ساتھ کہا، "یہ فحش لکھتا ہے ناں؟" مجھے اپنے والد صاحب کے پسندیدہ مصنف سے اس قسم کی توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے تردید کی لیکن میرے سینئیر  کی اُمیدوں پر پانی نہیں پھرا۔ وہ کتاب مجھ سے لے گیا اور پھر ہفتوں تک وہ مجھ تک واپس نہیں پہنچی بلکہ اُس کے دوستوں  میں گردش کرتی رہی۔ وہ  میری دلیری  پر عش عش بھی کر رہے تھے کہ وہ دسویں جماعت میں ہوتے ہوئے بھی جس مصنف کی کتاب ہاسٹل میں لانے کی جرات نہیں کر سکتے کہ کہیں اُستاد کی نظر نہ پڑ جائے، میں ایک جونئیر طالب علم وہ کتاب سرِعام لے آیا  تھا۔
بہرحال اُس ایک مجموعے سے قطعِ نظر منٹُو کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے کی سعادت مجھے اُس وقت نہیں بلکہ کالج کے زمانے میں حاصل ہوئی۔مجھے  زبان تو کافی پسند آئی لیکن میں اُن کے تخیل سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔ قائداعظم کی سوانح "سمندر کی آواز سنو" لکھتے ہوئے میں نے منٹُو کے خاکے "میرا صاحب" سے کچھ مدد بھی لی۔
منٹُو سے متاثر ہونے کا مرحلہ میری زندگی میں کافی دیر سے آیا۔
وہ بیسویں صدی کے آخر آخر کے سال تھے۔ ہمارے معاشرے میں جدت پسندی کا شوق حد سے گزر چکا تھا اور ہم ایسی ہر چیز کو مقدس قرار دینا چاہتے تھے جسے قدامت پسندی کی وجہ سے پہلے کبھی برا سمجھا گیا ہو۔ ۱۹۹۷ء میں پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی ۔ میں ان دنوں ڈان اخبار کے ہفتہ وار "ریویو" میں لکھا کرتا تھا۔ میڈم نورجہاں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی تجویز سامنے آئی تو میں نے کہا کہ چونکہ منٹُواِس موضوع پر لکھ گئے ہیں لہٰذا اُنہی کی تحریر کو پیش کیا جائے البتہ اُس میں اضافے کردیے جائیں جو اِتنے برس گزرنے کے بعد ضروری ہو گئے ہیں۔ اس کے لیے منٹُو کے خاکے "نورِ جہاں سرورِ جہاں" کے بعض حصوں کا ترجمہ کیا اور اُسی کے برابر اپنی طرف سے اضافہ جسے علیحدہ ظاہر کیا گیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد دبئی سے ایک خوبصورت اور مہنگا انگریزی رسالہ شائع ہوا جس کا نام اُردو میں تھا ، "زمین"۔ ڈان کےاسٹا ف سے میرے دوست یداللہ اجتہادی اس رسالے کے شعبہء ادارت میں شامل ہو چکے تھے۔ اُنہیں میرا نورجہاں والا آرٹیکل یاد تھا اس لیے انہوں نے پوچھا کہ کیا میں منٹُو پر سوانحی مضمون لکھ سکتا ہوں تو میں نے حامی بھر لی۔ منٹُو کی اکثر تحریریں میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ باقی سب اس مضمون کے لیے پڑھیں۔
میری عادت تھی کہ سوانحی خاکہ چاہے مختصر ہی کیوں نہ ہو قریب قریب سارے بنیادی ماخذ دیکھنے کے بعد ہی لکھتا تھا۔ صرف چند ہی خاکے ہوں گے جو میں نے تھوڑی معلومات کی بنیاد پر لکھے ہوں۔ منٹُو والا مضمون بیحد سراہا گیا۔ انٹرنیٹ پر کئی ویب سائیٹس نے اُسے نقل کیا۔ کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ وِکی پیڈیا پر منٹُو کے صفحے پر حوالہ جات میں شامل ہے۔ اگلی قسط میں اُس کا اردو ترجمہ پیش کروں گا چند تصریحات کے ساتھ۔
اُسی زمانے میں خواتین کے حقوق کی دعویدار بعض ہستیوں کی طرف سے یہ اعتراض مشہور ہو رہا تھا کہ منٹُو نے اپنے افسانوں میں خواتین کے ساتھ انصاف نہیں کیا بلکہ اُن کا استحصال کیا۔ میں خود بھی فیمنسٹ کہلاتا تھا لیکن منٹُو کے بارے میں یہ بات جس طرح پیش کی جا رہی تھی اُس پر میں نے ڈان میں اپنے دوستوں سے کہا کہ ضیاء الحق صاحب بعض لوگوں کا بھلا کر گئے ہیں جو صرف اِس لیے روشن خیال تسلیم کر لیے جاتے ہیں کہ جنرل ضیاء کی برائی کرتے ہیں۔  ورنہ روشن خیالی کسے کہتے ہیں یہ ان بیچاروں کو معلوم نہیں ہے۔ بہرحال اس طرح منٹُو کی کہانیوں میں خواتین کی عکاسی کے موضوع پر بھی ایک مضمون انگریزی میں تحریر ہو گیا جو ڈان میں شائع ہوا۔
اسی زمانے میں کراچی کے بعض بہت ہی سینئیر فنکاروں نے منٹُو پر ڈرامہ اسٹیج کرنے کا ارادہ کیا۔ اُس وقت تک عام طور پر منٹُو کے صرف افسانے ہی اسٹیج کیے جاتے تھے لیکن میں نے یہ تجویز پیش کی کہ منٹو کی زندگی کے بارے میں ڈرامہ لکھا جائے جس میں اُن کے افسانوں کے اقتباسات بھی شامل ہوں لیکن وہ اُن کی زندگی سے جُڑے ہوئے ہوں۔ وہ ڈرامہ میں نے لکھا جو کسی وجہ سے اُس وقت اسٹیج نہیں ہو سکا لیکن کافی بعد میں اُسے نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس یعنی "ناپا" کے زیرِ اہتمام اسٹیج کیا گیا۔ ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ بھارت میں بھی کسی فیسٹیول میں اسٹیج کیا جا رہا ہے لیکن وہ خبر کچھ ادھوری تھی اور تصدیق نہیں ہو سکی۔
اِسی ڈرامے کو کتابی صورت میں شائع کروانے کے لیے میں نے منٹُو کے بارے میں اپنے انگریزی مضمون کا اُردو ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر انور سجاد نے کمال مہربانی کے ساتھ اسے پڑھ کر مشورہ بھی دیا۔ وہ کتاب تو شائع نہیں ہو سکی لیکن اس طرح ڈاکٹر صاحب کی زبانی منٹُو کے ساتھ اُن کی ملاقاتوں کا کچھ حال سننے کا اتفاق ہوا جب ڈاکٹر صاحب نوجوانی کے زمانے میں منٹُو سے افسانہ نگاری سیکھتے تھے۔
۲۰۰۷ء میں منٹُو کے بارے میں میرا زاویہء نگاہ کچھ تبدیل ہوا۔ علامہ اقبال کے فکری نظام کو مربوط کرنے کےبعد جب میں نے پاکستانی تاریخ کو دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ دراصل ہم نے  اپنی تعلیم  کی وجہ سے  معاشرے کے بارے میں بعض مفروضے قائم کر لیے ہیں لیکن تاریخ اور تجربہ دونوں ان کی نفی کرتے ہیں۔
اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ منٹُو کے افسانے ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ ان مفروضوں کی بنیاد پر حقیقت کیسی نظر آتی ہے۔ اس لیے وہ حقیقت کی نہیں بلکہ ایک مفروضے کی عکاسی کرتے ہیں اور وہ مفروضہ میرے خیال میں غلط ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح ایک ادیب یہ کہہ سکتا ہے کہ سوسائٹی ننگی ہے، اُسی طرح سوسائٹی کو بھی حق ہے کہ وہ بھی ادیب کے فن کے بارے میں کوئی ایسی ہی رائے پیش کر سکے۔
اگلی پوسٹ میں منٹُو کے بارے میں اپنے انگریزی مضمون کا ترجمہ پیش کروں گا جو مجھے سوانحی خاکے کے طور پر پسند ہے البتہ اس میں دو جملے مجھے اب درست نہیں لگتے۔ اُن پر تبصرہ بھی پیش کروں گا۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔