اتوار، 20 ستمبر، 2015

چت رنجن داس


عیدالاضحیٰ قریب آ رہی ہے اور ساتھ ہی بھارت سے کچھ خبریں بھی آ رہی ہیں جن کا تعلق گائے کی قربانی سے ہے۔ تازہ ترین یہ ہے کہ وہاں بعض انتہاپسند رہنماوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گائے ذبح کرنے کی سزا موت ہو۔
اس موقع پر شاید یہ بات آپ کو دلچسپ لگے کہ بھارت میں جس رہنما کو "دیش بندھو" یعنی "محبِ وطن" کا لقب دیا جاتا ہے اور جس کے تذکرے آج بھی وہاں کی درسی کتابوں میں ہیں اُس نے کبھی اپنے ہم مذہب ہندووں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو عید کے موقع پر گائے ذبح کرنے سے منع نہ کریں۔ یہ عظیم بنگالی رہنما چت رنجن داس تھے جنہیں سی آر داس بھی کہا جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے زبردست حامی تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اب صرف اُن کا نام ہی لیا جاتا ہے، نظریات کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔
لیکن تعجب ہے کہ ہم نے پاکستان میں بھی داس کو بھلا دیا ہے۔ میں نے اپنی انگریزی کتاب "حیاتِ اقبال اور ہمارا عہد" میں داس کا تذکرہ کر کے اس غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ میرے فیس بک صفحے پر بھی داس کے اقوال آئے دن پیش کیے جاتے ہیں۔
حال ہی شائع ہونے والی میری اُردو کی درسی کتابوں کی سیریز کی ساتویں جماعت کی کتاب میں بھی داس کے بارے میں ایک سبق شامل ہے۔ اس کے اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔
*  
چِت رنجن داس ایک ایسی تاریخی شخصیت ہیں جو نہ صرف ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے رہنما تھے بلکہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسی مسلم ریاستوں کے لیے بھی ایک ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔وہ اُن غیرمسلم رہنماوں میں سے تھے جنہوں نے بڑے کھلے دل کے ساتھ اِس بات کی تائید کی کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اس طرح کی کہ اُن کی وفات پر مولانا محمد علی جوہر نے لکھا کہ کوئی شریف مسلمان داس کا احسان کبھی نہیں بھولے گا۔ محمد علی جناح نے (جنہیں اب ہم قائدِاعظم کے نام سے جانتے ہیں)، اِس موقع پر کہا کہ داس نہ صرف ہندووں کے رہنما تھے بلکہ مسلمان بھی اُن سے محبت کرتے تھے۔
*
داس ۵ نومبر ۱۸۷۰ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق وِکرم پور سے تھا جو اَب بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک ضلع میں ہے۔ انہوں نے انگلستان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور ایک کامیاب بیرسٹر بن گئے۔
داس کو شاعری سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ بنگالی زبان میں اُن کی شاعری کے پانچ مجموعے شائع ہوئے جن کے نام ملنچا، مالا، انتریامی، کشورکشوری اور ساگرسنگیت تھے۔ ان میں سے آخری مجموعے کے عنوان کا مطلب تھا ”سمندر کے گیت“۔ یہ ۹۴ نظموں کا مجموعہ تھا جو داس نے سمندر کی لہروں سے متاثر ہو کر لکھی تھیں۔ یہ مجموعہ۱۹۱۳ء میں شائع ہوا اور داس نے انگریزی میں اس کا ترجمہ کروایا۔
*         
۱۹۲۲ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس گیا (Gaya) کے مقام پر ہوا تو داس کو صدر بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے خطبہء صدارت میں ایک نئی جمہوریت کا تصور پیش کیا جو مشہور امریکی مصنفہ میری پارکر فولٹ کی کتاب نئی ریاست (The New State) سے لیا گیا تھا۔
داس نے بڑے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی علیحدہ قومیت برقرار رکھنے کا مکمل حق حاصل ہے اور مسلمانوں کے اِس حق کی نفی کر کے ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اُن کے حقوق دے کر ہی ہندوستان میں سچا امن قائم ہو سکتا ہے اور سچی آزادی مل سکتی ہے۔ اس کے لیے اُنہوں نے تمام اسلامی دنیا کے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ اسلامی دنیا کو متحد کرنے کے بعد پورے ایشیا کو متحد کرنا چاہیے۔
داس کا خواب یہ تھا کہ دنیا کی تمام قومیں اپنی اپنی جگہ خود کو مضبوط بنائیں مگر آپس میں مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مدد کر کے پوری انسانیت کو متحد کر دیں۔
جب علامہ اقبال کی نظر سے داس کے یہ خیالات گزرے تو اُنہوں نے اپنے ایک خط میں کسی کو لکھا کہ داس نے ”اُسی روحانی اصول کو سیاسی رنگ میں پیش کیا ہے“ جو خود علامہ اقبال نے اپنی فارسی کتاب "اسرار و رموز" میں پیش کیا تھا۔
*         
کانگریس کے سالانہ اجلاس میں خطبہء  صدارت پیش کرنے کے بعد داس نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ کانگریس اُن کے خیالات کی تائید نہیں کر رہی تھی۔ وہ کانگریس سے الگ تو نہیں ہوئے مگر اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنائی جس کا نام سوراج پارٹی تھا۔ اس جماعت نے ۱۹۲۳ء کے انتخابات میں بنگال میں زبردست کامیابی حاصل کی۔
ہمارے قائداعظم بھی، جو اُس وقت صرف محمد علی جناح تھے، اِن انتخابات میں آزاد اُمیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے تھے۔ اُنہوں نے آزاد اُمیدواروں کے ساتھ داس کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے داس کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہو گئی۔ اس کے بعد داس نے ایک ایسا انوکھا قدم اُٹھایا جس نے سب کو حیران کر دیا۔
*
بنگال کے صوبے میں پہلے ہندووں  کی اکثریت ہوا کرتی تھی لیکن ۱۹۲۱ء کی مردم شماری سے ظاہر ہوا تھا کہ اب یہاں مسلمانوں کی تعداد ہندووں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود بنگال کے مسلمانوں کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ تعلیم میں ہندووں سے پیچھے تھے۔ سرکاری ملازمتوں میں اُن کی تعداد بہت کم تھی۔ غربت عام تھی۔ اس کے علاوہ ہندووں  اور مسلمانوں کے درمیان فسادات بھی ہو جاتے تھے جن کی وجہ عام طور پر یہ ہوتی تھی کہ کبھی نماز کے وقت ہندو مساجد کے سامنے سے اپنا مذہبی جلوس نکال بیٹھتے تھے جس میں باجے بجائے جا رہے ہوتے تھے اور کبھی عیدُالاضحیٰ کے موقعے پر مسلمان گائے ذبح کرتے تھے تو ہندووں  کے جذبات کو ٹھیس لگتی تھی جن کے نزدیک گائے مقدس تھی۔
داس نے ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے بنگال کے مسلمان رہنماوں  کے ساتھ معاہدہ کیا جسے میثاقِ بنگال (Bengal Pact) کا نام دیا گیا۔ اس میں مسلمانوں کے تمام جائز مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ طے پایا کہ ہندو نماز کے اوقات میں مساجد کے سامنے سے جلوس نہیں نکالیں گے۔ اسی طرح مسلمان گائے ذبح کرنے سے گریز کریں گے لیکن مذہبی مواقع پر ذبح کر سکتے ہیں بشرطیکہ جان بوجھ کر ہندووں کے سامنے ذبح نہ کریں۔ اس کے علاوہ تمام تعلیم گاہوں میں اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو اُن کی آبادی کے تناسب سے حصہ دیا جائے گا۔ جب تک تعلیم گاہوں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ اُن کی آبادی کے تناسب کے مطابق نہ ہو جائے، اُس وقت تک نئے داخلوں اور نئی ملازمتوں میں سے ساٹھ یا اسّی فیصد حصہ مسلمانوں کو ملے گا۔
انتہاپسند ہندووں  کی طرف سے اس معاہدے کی زبردست مخالفت ہوئی۔ داس کے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے الزام لگایا کہ داس مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہندووں  کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کانگریس نے بھی میثاقِ بنگال کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ پھر بھی داس نے جون ۱۹۲۴ء میں صوبائی کانگریس کا ایک خاص اجلاس بلوا کر میثاق منظور کروا لیا۔
 *
میثاقِ بنگال کی منظوری کے چند ماہ بعد ہی داس بیمار پڑ گئے۔ پھر اسی بیماری میں ۱۶ جون۱۹۲۵ء کو اُن کا انتقال ہو گیا۔ ملک بھر میں سوگ منایا گیا۔ داس نے اپنی زندگی ہی میں اپنی محل نما کوٹھی قوم کے نام وقف کر دی تھی تاکہ اُسے عورتوں کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ آج وہاں کلکتہ کا ایک بہت بڑا ہسپتال ہے۔
میثاقِ بنگال پر عمل نہ ہو سکا۔ داس کی وفات کے بعد ہی کانگریس اور ہندووں کی مخالفت کی وجہ سے اِسے ختم کر دیا گیا۔ البتہ داس کے جو شاگرد ہمیشہ داس کے خوابوں کی تکمیل میں سرگرم رہے اُن میں سے دو بیحد مشہور ہیں۔ ایک سبھاش چندربوس تھے، جنہوں نے بعد میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے آزاد ہند فوج بنائی۔دوسرے حسین شہید سہروردی تھے جنہوں نے آگے چل کر قائداعظم کے ساتھ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں زبردست حصہ لیا اور بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بھی ہوئے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔