جمعرات، 10 ستمبر، 2015

1971کی شکست اور ہمارا حوصلہ

جنگِ ستمبر کی اہمیت کے بارے میں میری پوسٹ زیادہ تر پسند کی گئی لیکن یہ تبصرہ بھی موصول ہوا کہ چونکہ ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہو گیا اور بھارت کے مقابلے میں ہتھیار بھی ڈالنے پڑے اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ جنگِ ستمبر نے قوم کو جو خوداعتمادی عطا کی وہ ابھی باقی ہے اور وہی آج تک اس ملک کو سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ خیال کبھی میرے دل میں بھی آیا تھا لیکن پھر معلوم ہوا کہ یہ خیال ہمارا  اپنا نہیں ہے بلکہ ہمیں  اُن دانشوروں کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے جن کی دانشوری حقیقت میں ذہنی بٹیربازی ہے۔ اُس پر بھی ہاتھوں میں جو بٹیر ہیں وہ غیروں کے سدھائے ہوئے ہیں۔
اِس لیے یہ دانشور مجھے کبھی ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکے کہ  کیا ہم سے الگ ہو کر مشرقی پاکستان دوبارہ بھارت کا حصہ بن گیا؟ کیا وہاں شکست کھانے کے بعد ہم بالکل ہی حوصلہ ہار کر بیٹھ گئے؟ جب یہ دونوں چیزیں نہیں ہوئیں تو پھر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ ۱۹۶۵ء میں پیدا ہونے والے جذبے ہی کا نتیجہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں بہت بڑی شکست کھانے کے بعد بھی حوصلہ سلامت ہے۔  
ویسے بھی ہم  اپنی تاریخ کیوں بھول جائیں۔ غزوہء بدر کے بعد غزوہء اُحد بھی ہوا تھا۔ پھر کیا اُس کے بعد  خدا کی مدد کا آسرا اُٹھ  گیا؟ فتحِ مکہ کے بعد حنین کامرحلہ بھی گزرا ۔ کیا اُس کی وجہ سے سورہء نصر منسوخ قرار پائی؟
شکست بھی زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ قوم میں خوداعتمادی پیدا ہو جائے تو پھر وہ مدت تک قائم رہ سکتی ہے: "من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں۔"
ہمیں نالائق طالب علموں کی طرح نہیں سوچنا چاہیے کہ چھٹی جماعت میں پاس ہوئے تھے مگر چونکہ ساتویں میں فیل ہو گئے ہیں اس لیے اب آٹھویں میں نہیں جا سکیں گے۔ زندگی کچھ اور شے ہے۔ 

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔