جمعرات، 3 ستمبر، 2015

کیا اسلامی ریاست میں غیرمسلم سربراہِ حکومت ہو سکتا ہے؟

اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ پاکستان کا بنیادی اُصول یہ تھا کہ مسلمان اپنے عقیدے، سیاسی نظریے اور اپنی یکرنگ ثقافت کی وجہ سے ایک قوم ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس سیاسی نظریے کی رُو سے پاکستان کی غیرمسلم آبادی کی کیا حیثیت ہو گی۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی سیاسی نظریے کی رُو سے ایک اسلامی ریاست میں ایک غیرمسلم بھی انتظامیہ کا سربراہ یعنی وزیراعظم ہو سکتا ہے بشرطیکہ اُس کے اختیارات پہلے سے ایک آئین میں متعین کر دیے گئے ہوں جیسا کہ آج کل کسی بھی جمہوری ریاست میں ہوتا ہے۔
اِس کی وضاحت سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ علامہ اقبال کے بعد آنے والے اکثر مسلمان دانشوروں نے اِس بات سے اختلاف کیا ہے۔ ان میں عنایت اللہ مشرقی، محمد اسد، مودودی صاحب، مولانا شبیر احمد عثمانی اور غلام احمد پرویز جیسے مشہور نام شامل ہیں۔ لیکن ان تمام بزرگوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ سب اپنی اپنی ذاتی آراء پیش کر رہے ہیں خواہ ان کی بنیاد قرآن و سنت ہو۔
چنانچہ ہم ان کی تجاویز خواہ قبول کریں ، خواہ رد کریں، اُنہیں اُس اسلامی سیاسی نظریے کی تشریح نہیں کہہ سکتے جو پاکستان کے بنیادی اُصول میں شامل تھا۔ یہ دعویٰ تو اِن بزرگوں نے کیا ہی نہیں۔
اب ہم اسلامی سیاسی نظریے کی طرف آتے ہیں۔ اس کی مختصر تاریخ علامہ اقبال نے ایک تحقیقی مقالے میں بیان کی جو ۱۹۰۸ء میں انگریزی میں لندن سے شائع ہوا ۔ اس کا ترجمہ ۱۹۲۳ء میں لاہور سے "خلافتِ اسلامیہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔
علامہ نے عباسی عہد کے دستوری فقیہہ الماوردی کے حوالے سے لکھا کہ وزارت دو طرح کی ہوتی ہے۔ غیرمحدود اختیارات کے ساتھ اور محدود اختیارات کے ساتھ۔ پہلی قسم کی وزارت پر صرف کسی مسلمان کو فائز کیاجا سکتا ہے جبکہ دوسری قسم کی وزارت کسی غیرمسلم کو بھی دی جا سکتی ہے۔
جہاں تک غیرمحدود اختیارات والی وزارت کا تعلق ہے، ہمارے زمانے میں اُس کا تصور بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس قسم کی وزارت میں وزیر اپنی مرضی سے ملک کاآئین بھی تبدیل کر سکتا تھا۔
پاکستان کےحوالے سے بات کریں تو ہر قسم کی وزارت یہاں تک کہ وزارتِ عظمیٰ بھی محدود اختیارات والی وزارت ہی کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ تمام اختیارات دستور میں پہلے سے متعین کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی وزیراعظم پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے جو کسی بھی وقت عدم اعتماد کی قرارداد منظور کر کے اُسے برطرف کر سکتی ہے۔
 یہ تمام خصوصیات محدود اختیارات والی وزارت کی ہیں جس کے بارے میں اسلامی سیاسی نظریے میں شروع ہی سے واضح تھا کہ یہ عہدہ کسی غیرمسلم کو بھی مل سکتا ہے، جیسا کہ الماوردی نے بارہویں صدی عیسوی میں لکھا اور علامہ اقبال نے ۱۹۰۸ء میں اپنے مقالے میں بیان کیا۔
یہ نکتہ قائدِ ملت لیاقت علی خاں نے پاکستان کی پہلی دستورساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا، جب انہوں نے کہا:"اسلامی ریاست میں ...ایک غیرمسلم ایک آئینی حکومت کے تحت انتظامیہ کا سربراہ [مثلاً وزیراعظم] ہو سکتا ہے جس کے پاس وہ محدود اختیارات ہوں جو آئین کے تحت اُس مخصوص ریاست میں ایک فرد یا ادارے کو تفویض کیے گئے ہوں۔"
 یہ بات محض کہنے کی حد تک نہیں تھی۔ پہلی دستورساز اسمبلی میں آئین کے جتنے بھی مسودے پیش ہوئے اُن میں سے کسی میں بھی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مذہب کی شرط نہیں رکھی گئی اگرچہ انہی مسودوں میں واضح طور پر درج تھا کہ پاکستان کو اِسلامی ریاست بنایا جا رہا ہے۔ مثلاً ریاست کے اسلامی تشخص کے لیے یہ تجویز کیا گیا تھا کہ سربراہِ ریاست کے لیے [یعنی اُس وقت گورنرجنرل اور آج کی اصطلاح میں صدرِ مملکت] مسلمان کی شرط رکھی جائے جیسا کہ برطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ کے لیے پروٹسٹنٹ ہونا ضروری ہے۔
پاکستان میں پہلی دفعہ غیرمسلموں پر وزارتِ عظمیٰ کے دروازے ۱۹۵۶ء کے آئین میں بند کیے گئے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ آئین سیکولرازم کے مبلغ اسکندر مرزا نے ایک ایسے دور میں نافذ کیا تھا جب مذہبی طبقے کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ انتہاپسندوں کی طرف سے کوئی دباوء نہیں تھا۔ لہٰذا ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ایسا کس کے اشارے پر ہوا، کیوں ہو اور مقصد کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ اسکندر مرزا نے مودودی صاحب کی محبت میں ایسا کیا  ہو گا۔
آیندہ ہم دستور میں سے یہ شِق نکال دیتے ہیں یا اسے باقی رکھتے ہیں، اِس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا لیکن ایک بات واضح ہو جانی چاہیے۔ جب قائدِ اعظم نے پاکستان کا بنیادی اصول یہ بتایا تھا کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو اُس میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ پاکستان میں غیرمسلموں سے کوئی امتیازی سلوک کیا جائے گا۔
غیرمسلموں سے امتیازی سلوک کی ذمہ داری صرف اُن دانشوروں پر بھی نہیں ڈالی جا سکتی جنہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اسلامی ریاست میں غیرمسلم کو سربراہِ حکومت نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اپنی رائے پیش کر رہے تھے۔جن حکومتوں نے اُن کی رائے قبول کی، ذمہ داری بھی اُنہی حکومتوں پر ہے۔
لیکن سب سے زیادہ تلخ سوالات اُن روشن خیالوں سے پوچھے جا سکتے ہیں جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر زور زور سے چھاتی پیٹتے ہیں لیکن اِس کا علاج کہیں باہر سے درآمد کرنے پر زور دیتے ہیں۔ کیا ہم اُن سے پوچھ سکتے ہیں:
  1. آپ نے آج تک عوام کو اِس بات سے آگاہ کیوں نہیں کیا کہ پاکستان میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۶ء تک غیرمسلم پر بھی وزارتِ عظمیٰ کے دروازے کھلے تھے اور دستورساز اسمبلی نے اِس بات کو اِسلامی ریاست کے تصور کے عین مطابق قرار دیا تھا؟ کیا یہ بات ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہے؟
  2. اگر پہلے معلوم نہیں تھا تو کیا اب آپ اِس بات کی تشہیر کرنے پر تیار ہیں؟

ممکن ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بعض لوگوں کے مفاد میں ہو جو اِس کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر بیرونی دنیا سے توجہ بھی حاصل کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے امداد وغیرہ بھی۔
لیکن جو لوگ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اُنہیں یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ جب قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو مسلم قومیت کے اُس مفہوم میں یہ بات شامل تھی کہ ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں تک کہ ایک غیرمسلم اسلامی ریاست میں سربراہِ حکومت بھی بن سکتا ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بعد میں ہم نے اِس بات سے اختلاف کیا۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ بات بھول گئے۔ ورنہ اختلاف کا حق سب کو ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کو بھولنا نہیں چاہیے۔ 

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔