اتوار، 13 ستمبر، 2015

ایک تجویز

ایک زمانہ تھا جب  کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پینے کا سادہ پانی کولڈ ڈرنک کی قیمت پر ملے گا۔ آپ کسی اونچے ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھیں گے اور وہاں آپ سے کہا جائے گا کہ  ہمارے یہاں پینے کا صاف پانی نہیں ہے، آپ قیمت دے کر خریدئیے۔ لیکن بہرحال ایسا ہو رہا ہے۔
خدا کرے کہ اُردو کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش نہ آئے۔ جو لوگ  نہیں  چاہتے  کہ عوام سرکاری زبان پر دسترس حاصل کریں،  وہ اُردو کے سرکاری زبان بننے پر اسے  بھی  عوام کی پہنچ سے دور  کر سکتے ہیں جس طرح آج سادہ پانی مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے۔
ورنہ  کبھی انگریزی بھی عوام کی دسترس میں تھی۔ برطانوی عہد میں کسی سرکاری یا خیراتی اسکول میں پڑھ کر بھی ایک طالب علم اُمید  کر سکتا تھا کہ اُسے انگریزی آ جائے گی۔ علامہ اقبال اس کی نمایاں مثال ہیں لیکن اُس زمانے میں یہ ایک عام بات تھی۔ ایک غریب مگر ہونہار طالب علم کے لیے انگریزی سیکھنا مشکل ضرور تھا، ناممکن نہیں تھا۔ بعد میں اِسے ناممکن بنا دیا گیا۔
قومی زبان کے سرکاری زبان ہونے کا فائدہ صرف اُس صورت میں ہوتا ہے جب اس پر عبور حاصل کرنے کے لیے انسان اسکول کا محتاج نہ ہو۔ معاشرے میں اسے فصاحت کے ساتھ بولا جا رہا ہو۔ ادب، فلم اور میڈیا کے ذریعے اس میں مہارت خودبخود حاصل ہو جائے۔ فی الحال یہ صورت حال نہیں ہےلیکن اسے پیدا کرنا ہو گا اگر ہم اُردو کے سرکاری زبان بنائے جانے سے سچ مچ کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ہمیں اپنے ادب، فلم اور میڈیا کو اِس قابل بنانا ہو گا کہ وہ قومی زبان کی ترویج کر سکے تاکہ ایک عام شخص کے لیے بھی وہ ماحول پیدا ہو جس میں اُردو خودبخود اُس کی دسترس میں آ جائے۔ اس پر کوئی پہرے نہ بٹھائے جا سکیں۔
یہ کام ہمیں اداروں اور حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ خود کرنا چاہیے اور یہ صرف اُس ادبی تحریک کی بحالی کے ذریعے ممکن ہے جسے ۱۹۳۵ء کےبعد نظرانداز کر دیا گیا۔ ہمیں چاہیے کہ ۱۹۳۵ء کے بعد جو لوگ اِس تحریک میں شامل ہوئے یا اس کے مقاصد کو فروغ دیا اُن کے کارناموں کو اِسی تحریک کے تسلسل میں دیکھا جائے۔ اس طرح ہم وہ تسلسل دریافت کر سکیں گے جس کے بغیر نہ زبان زندہ رہ سکتی ہے اور نہ قوم۔
حکومت یا ادارے اِس طرف توجہ کرتے تو بہتر تھا لیکن میرے خیال میں یہ کام انفرادی سطح پر بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر یہ بات آپ کے دل کو لگتی ہے تو آپ اپنے طور پر اِس کے لیے مصروف ہو جائیے۔
ہم اِس کام کو چھ شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
1.     مولانا حالی سے علامہ اقبال کے عہد تک کے ادیب جن میں سر سید، حالی، شبلی نعمانی، اکبر الٰہ آبادی، محمد علی جوہر، علامہ اقبال، آغا حشر کاشمیری، مولانا ظفر علی خاں اور دوسرے بزرگ شامل تھے، اُن کے ناموں سے لوگ عام طور پر واقف ہیں۔ اُس عہد کی ثقافتی تاریخ تفصیل کے ساتھ میری اُردو کتابوں کے اُس سلسلے میں بیان ہوئی ہے جس کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں: "اقبال: ابتدائی دور"، "اقبال: تشکیلی دور" اور "اقبال: درمیانی دور"۔ چوتھی اسی برس آنے والی ہے۔ یہ کتابیں اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے شائع ہو رہی ہیں جو میری درخواست پر اِنہیں مفت ڈاون لوڈ کے لیے بھی دستیاب کر رہی ہے۔
2.     وہ نئی نسل جو علامہ اقبال کی صحبت میں یا ان کے زیرِ اثر تیار ہوئی اُسے ہمارے نقادوں نے بددیانتی کے ساتھ ادب کی تاریخ سے خارج کر دیا۔ ان میں حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع، میاں بشیر احمد، ایم اسلم، شکیل بدایونی، اصغر سودائی  اور بہت سے دوسرے نام شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کے کارناموں سے ہم آج بھی واقف ہیں مگر پہچان کھو بیٹھے ہیں۔ میاں بشیر احمد کی نظم "ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح" پہلی دفعہ مارچ ۱۹۴۰ء میں لاہور میں مسلم لیگ کے اُسی اجلاس میں پڑھی گئی جہاں قراردادِ پاکستان پیش ہوئی تھی۔ اصغر سودائی نے تحریکِ پاکستان کے دنوں میں وہ نظم لکھی جس کا پہلا شعر ہماری پہچان بن گیا: "پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الااللہ۔" حکیم احمد شجاع وہ شخصیت ہیں جنہوں نے فرقہ واریت سے بلند ہو کر قرآن شریف کی تفسیر کے اصول بھی مرتب کیے اور دوسری طرف وہ کامیاب ترین ڈرامہ نگار اور فلم نگار بھی تھے۔ بہت سے مشہور نغمے جو آج محاورہ بن چکے ہیں، انہی کی لکھی ہوئی فلموں سے ہیں، جیسے "ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں"، "تو لاکھ چلے ری گوری چھم چھم کے"، "تیری الفت میں صنم دل نے بہت درد سہے" وغیرہ۔ شجاع نے علامہ اقبال کے ساتھ مل کر اُردو کی درسی کتابوں کا ایک سلسلہ  مرتب کیا جو بیحد مقبول تھا لیکن جسے ۱۹۵۳ء کے بعد ہم نے کسی وجہ کے بغیر نصاب سے خارج کر دیا۔ اب میں نے اُسے بنیاد بنا کر آج کے تقاضوں کے مطابق "کتابِ اردو" کا سلسلہ مرتب کیا ہے جسے ٹاپ لائن پبلشرز نے شائع کیا ہے۔ اس میں ان تمام ادیبوں کی تحریریں بھی شامل کی ہیں جن کا یہاں تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس طرح "کتابِ اردو" کی تین کتابیں صرف طالب علموں کے لیے نہیں ہیں بلکہ بڑے بھی اگر "اُردو ادب کی اسلامی تحریک" سے واقف ہونا چاہیں تو اُن کے لیے یہی ذریعہ فی الحال سب سے بہتر ہے۔
3.     قیامِ پاکستان کے بعد پہلا بڑا نام ابن صفی ہے جنہوں نے الٰہ آباد سے جاسوسی دنیا اور کراچی سے عمران سیریز کا آغاز کیا۔ قریباً ڈھائی سو ناولوں میں انہوں نے اُن  سیاسی، سماجی  اور بین الاقوامی مسائل کا جائزہ پیش کیا جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کی تمام ترقی پذیر قوموں کو آیندہ سو برس میں پیش آنے والے تھے۔ اُن کی سیاسی پیش گوئیاں نہ صرف حرف بحرف درست ثابت ہو رہی ہیں بلکہ اُن کے تجویز کردہ حل ابھی تک قابلِ عمل بھی ہیں۔ ابن صفی نے نہ صرف اردو ادب کی اسلامی تحریک کا تسلسل برقرار رکھابلکہ ادب میں وہ اجتہاد بھی کیا جس کی ہمیں آزادی کے بعد ضرورت تھی۔ میں نے یہ بات اُن کی تحریروں کے اقتباسات اور تجزیوں کے ذریعے پوری وضاحت کے ساتھ تین کتابوں میں پیش کی ہے جن کے نام "سائیکو مینشن"، "رانا پیلس" اور "دانش منزل" ہیں۔ ان میں سے پہلی دونوں کتابیں فضلی سنز کراچی سے شائع ہو چکی ہیں۔ تیسری کتاب بھی لکھی جا چکی ہے اور شائع ہونے والی ہے۔
4.     ابن صفی کے بعد ہمارے ادب کے دوسرے بڑے مجتہد کا نام وحیدمراد ہے۔ میں نے اپنی انگریزی تصنیف "وحیدمراد اور ہمارا عہد" میں نہ صرف وحیدمراد کی سوانح بیان کی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ اُن کی فلموں کا ہماری ثقافت کے تسلسل میں کیا کردار ہے۔ لیکن وحیدمراد بھی ایک علامت ہیں اُس فلمی صنعت کی جس کی بنیاد حکیم احمد شجاع نے رکھی تھی۔ اس صنعت نے سیکڑوں ایسی فلمیں پیش کیں جو درحقیقت "اسلامی تحریک" کا تسلسل تھیں۔ بہت سی فلمیں اس زمرے سے باہر بھی ہیں اور یہ عموماً وہ فلمیں ہیں جنہیں عوام نے بری رد کر دیا یا پھر جنہیں صرف ایک مخصوص طبقے نے پسند کیا۔ اسلامی تحریک کی اصل نمایندہ فلمیں وہ تھیں جنہیں قبولِ عام حاصل ہوا جیسے ارمان، مستانہ ماہی اور آئینہ وغیرہ۔ ہمیں ان کے اسکرپٹ کتابی صورت میں شائع کرنے چاہئیں۔ ان کے نغمات کو شعری مجموعوں کی صورت میں سلیقے کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ تاکہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے۔
5.     اسی فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں نے ہمیں وہ قومی نغمے دئیے جو علامہ اقبال کے فلسفہء بیخودی کی تشریح ہیں۔ اس زمرے میں تمام قومی نغمے شامل نہیں ہیں بلکہ صرف وہ جو ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ جب ہم اپنی انفرادی خودی کو قوم کی خودی میں گم کر دیتے ہیں تو ہمیں کیا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ مشہور ترین مثالوں میں شامل ہیں: اپنی جاں نذر کروں، اے وطن کے سجیلے جوانو، اے راہ حق کے شہیدو، سوہنی دھرتی، جیوے پاکستان، ہم مصطفوی ہیں، میں بھی پاکستان ہوں، یہ وطن تمہارا ہے، وطن کی مٹی گواہ رہنا۔ ہم ان تمام نغمات سے واقف ہیں مگر شاعروں کے ناموں سے واقفیت ہے نہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور کیا ہے۔اس قسم کے نغمات عموماً فلمی شاعروں ہی نے لکھے ہیں، جیسے مسرور انور، صہبا اختر، کلیم عثمانی اور سیف الدین سیف۔ غیرفلمی شاعروں میں سے جمیل الدین عالی اس قسم کے نغموں کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور شاید صحیح معنوں میں وہی اس فن کے امام بھی ہیں۔ البتہ ان کے نغموں کا تعلق بھی اس طرح فلمی صنعت سے جا ملتا ہے کہ ان کی دھنیں عام طور پر سہیل رعنا نے بنائیں جو وحیدمراد کی ٹیم سےتعلق رکھتے تھے۔میں نے کتابِ اُردو کے ذریعے کوشش کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان نغمات پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کیا جائے۔ لیکن اِن نغمات کے ایک علیحدہ مجموعے کی ضرورت بھی ہے جس میں نغمات کا تجزیہ اور شاعروں کے مختصر حالاتِ زندگی شامل ہوں۔
6.     مستنصر حسین تارڑ ہمارے ادب کے وہ حیرت انگیز مجتہد ہیں جنہوں نے اُس تمام "ادبِ عالیہ" کو قبول کر لیا جو ہماری شناخت ہم سے چھیننے کے درپے تھا لیکن تارڑ نے اس کے باوجود اپنی شناخت برقرار رکھی۔ نتیجے میں اُن کے یہاں ایک  منفرد کیفیت پیدا ہوئی ہے جسے میں اپنے طور پر یوں سمجھتا ہوں کہ اُن کی تصانیف ہمیں مایوسی کے اُس اندھیرے میں ضرور لے جاتی ہیں جو "ادبِ عالیہ" کی دین ہے لیکن وہاں سے نکلنے کا راستہ بھی دکھا دیتی ہیں۔ وہ راستہ ہمیشہ روح کے اندر ہوتا ہے نہ کہ باہر۔ اس طرح تارڑ صاحب کے ذریعے کافرانہ ادب "مشرف بہ اسلام" نہیں تو کم سے کم "مشرف بہ پاکستان" ضرور ہو جاتا ہے۔ وجہ شاید یہ ہو کہ تارڑ صاحب نے صرف ادبِ عالیہ سے اثر قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ شروع ہی ابن صفی کے بھی زبردست مداح رہے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ جب ہم اسلامی تحریک کے پہلے پانچ شعبوں کا احاطہ کر لیں گے تو نتیجے میں تارڑ صاحب کے تخلیقی وجدان کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئے گی۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔