جمعرات، 17 ستمبر، 2015

بنگالی اور اُردو

چند برس پہلے ایک بنگلہ دیشی سے ملاقات ہوئی جس نے متحدہ پاکستان کے زمانے میں آنکھ کھولی تھی لیکن اُسے اپنی بنگالی ثقافت اور زبان پر ہمیشہ ناز رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ اُردو کے سرکاری زبان بننے کے بعد بنگالیوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی۔ میں تیار ہو گیا کہ ابھی قائداعظم کی برائی ہونے والی ہے لیکن بنگلہ دیشی نے ذرا دم لے کر کہا، "آپ خود ہی سوچیں۔ یہ ہمارے ساتھ کتنی بڑی ناانصافی تھی کہ ہمیں اُردو سیکھنے کے مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔ میں نے اپنے شوق سے سیکھی کیونکہ میرا بچپن مغربی پاکستان میں گزرا۔ لیکن اُن بنگالیوں کا کیا قصور جنہیں مشرقی پاکستان میں یہ موقع ہی نہیں ملا۔ اُن کا بھی حق تھا کہ اردو سیکھ سکتے۔ آخر یہ ہماری قومی زبان تھی۔"
مجھے تسلیم ہے کہ یہ صرف ایک بنگالی کے محسوسات ہیں۔ ان کی بنیاد پر دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ سابقہ مشرقی پاکستان کے تمام لوگ اسی طرح سوچتے تھے۔ لیکن جو لوگ اس طرح سوچتے تھے، ہمیں وہ بھی نظر نہیں آئے جس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے ادب، ثقافت اور زبان کے بارے میں ایسے تصورات اپنا لیے تھے جو حقیقتکے خلاف تھے۔
حقیقت یہ تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی "اردو ادب کی اسلامی تحریک" نے جو کچھ پیش کیا اُسے مشرقی پاکستان میں اُن لوگوں میں بھی پذیرائی ملی جنہیں اُردو نہیں آتی تھی۔ میں اس تحریک کے چھ اہم شعبوں کے نامگنوا چکا ہوں، اُن سب کے بارے میں یہی بات کہی جا سکتی ہے۔
یہاں تک کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی والدہ ابن صفی کے ناول کسی سے پڑھوا کر سنتی تھیں اور جب مشرقی پاکستان میں اُردو کے خلاف مہم چلی تب بھی اُنہوں نے یہ شوق ترک نہیں کیا۔ ابن صفی نے خود بھی ایسے بنگالیوں کا تذکرہ کیا ہے جو کہتے تھے کہ انہوں نے صرف ابن صفی کے ناولوں کی وجہ سے اُردو سیکھی تھی۔اِسی طرح وہ فلمیں جنہیں میں اس تحریک سے منسوب کرتا ہوں، مشرقی پاکستان میں کچھ کم مقبول نہیں تھیں۔
دوسری طرف بنگالیوں نے قیامِ پاکستان کے بعد جو کچھ اُردو کے دامن میں ڈالا وہ ہمیں آج تک دکھائی نہیں دے رہا، صرف اس لیے کہ وہ اُس تحریک کا حصہ تھا جس کے وجود سے ہم انکار کیے بیٹھے ہیں۔ صرف دو قومی نغمے اس طرح ہماری پہچان بنے ہیں کہ قومی ترانے کے تقریباً برابر پہنچے ہوئے ہیں، سوہنی دھرتی اور جیوے پاکستان۔ دونوں ہی بنگالی گلوکارہ شہناز بیگم کے گائے ہوئے ہیں۔
اپنی مقبولِ عام فلموں پر نگاہ دوڑائیے۔ کتنے ہی بنگالی فنکاروں کے نام فوراً ذہن میں آ جاتے ہیں۔ رحمٰن، شبنم، رونا لیلیٰ، مصلح الدین، شبانہ، فردوسی بیگم اور بیشمار دوسرے۔ مشرقی پاکستان میں بنی ہوئی فلم نواب سراج الدولہ شاید پاکستان کی سب سے عظیم تاریخی فلم تھی۔  
جب ۱۹۶۶ء میں شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پیش کیے جو مشرقی پاکستان کے احساسِ محرومی کا اظہار تھے، اُسی برس ڈھاکہ میں بننے والی فلم "بھیا" میں اسی احساسِ محرومی کا اظہار کسی اور طرح کیا گیا۔ ہیرو سرمایہ دار کا لڑکا تھا اور نام سلیم تھا۔ اُسے اپنے باپ کے کارخانے میں کام کرنے والے مزدور کی بہن سے محبت ہو جاتی ہے جو بڑی مشکلوں سے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ یوں انارکلی کی کہانی نئے زمانے کے تناظر میں پیش کی گئی۔ اس فلم میں ایک علامتی رنگ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ سلیم کا کردار مغربی پاکستان کے اداکار یعنی وحیدمراد نے ادا کیا اور غریب لڑکی کا کردار ایک بنگالی اداکارہ نے۔
میں نہیں جانتا کہ فلم بنانے والوں نے کیا سوچا تھا لیکن جو کچھ اُنہوں نے ہم تک پہنچایا اُس کا اَندازہ اِس اقتباس سے لگائیے کہ جب  ہیرو کا باپ ہیروئین کو ٹھکرا دیتا ہے تو ہیروئین کے ذہن میں قائداعظم کے ۱۹۴۳ء کے مسلم لیگ کے خطبہء صدارت کے فقرے گونجنے لگتے ہیں کہ اگر پاکستان میں غریب، غریب ہی رہ جائیں تو "مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئیے۔"
یہ بات ایک فلیش بیک کی صورت میں یاد کرنے کے بعد ہیروئین اپنے جھونپڑے میں آویزاں قائداعظم کی تصویر کو مخاطب کر کے روتے ہوئے کہتی ہے: " تمہارا پیغام ہم نہیں بھولے، قائد۔ بھول چکے وہ دھن والے جو ملک کو اپنی جائیداد سمجھتے ہیں۔ جو اپنی خوشی کے لیے ہمارا سکھ چین کچل دیتے ہیں۔ ہمیں برباد کر دیتے ہیں، میرے محسن! اُن کے خلاف میری یہ فریاد ہے۔" پھر وہ خدا سے دعا کرتی ہے، "مجھے ہمت دے۔ طاقت دے تاکہ میں بتا سکوں کہ ہماری بھی عزت ہے۔ قدر و قیمت ہے۔ ہمارا قائد سچا ہے۔اُس کا کہا سچا ہے۔"
اب غور کیجیے کہ ان فنکاروں نے جو کچھ پیش کیا اگر وہ "اردو ادب کی اسلامی تحریک" کا حصہ تھا تو پھر بنگالی اُردو ادب کے فروغ میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ہمیں یہ بات اس لیے نظر نہیں آئی کہ ہم نے ادب سے اس تحریک کو خارج کر دیا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس تحریک کی ایک نمایاں خصوصیت یہ معلوم ہوتی ہے کہ علاقائی زبانوں کے ساتھ اس کا تعلق دو طرفہ ہے۔ آج اگر ہم علاقائی زبانوں کا اُردو کے ساتھ ایک دفعہ پھر تصادم نہیں چاہتے تو ہمیں اِس تحریک کے وجود کو قبول کرنا ہوگا اور اِسے اس کا جائز مقام دینا ہو گا۔
ورنہ ماضی میں ہماری اِسی غلطی سے فائدہ اُٹھا کر جس مہربان پڑوسی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے، آج اُسی کے صحن سے چار ٹکڑوں کی خواہش ظاہر کی جا رہی ہے۔ خدا رحم کرے۔لیکن ہمیں بھی تو کچھ کرنا چاہیے؟ 

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔