جمعرات، 3 اگست، 2017

۲۰۱۷: سالِ رواں کے بارے میں میری کتاب جو پانچ برس پہلے شائع ہوئی



یادش بخیر، پانچ برس پہلے انگریزی میں میری ایک کتاب شائع ہوئی تھی، "۲۰۱۷: جنگِ مرغدین" (2017: The Battle for Marghdeen) ۔ اُس میں یہ عرض کیا تھا کہ ۲۰۱۷ء میں ہماری قومی و سیاسی تاریخ میں ایک موڑ آنے والا ہے۔ جن احباب نے وہ کتاب پڑھ رکھی ہے اُن میں سے بعض نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران اس حوالے سے مجھ سے کچھ سوالات پوچھے اور کچھ فرمایشیں کیں۔ یہ پوسٹ انہی کے جواب میں ہے۔
سب سے پہلے مجھے یہ کہنا ہے کہ میں نے یہ بات خدانخواستہ علمِ نجوم کی بنیاد پر نہیں کہی تھی۔ کسی بزرگ نے خواب میں آ کر بشارت بھی نہیں دی تھی۔ میں ایک مؤرخ ہوں۔ تاریخ کو چند خاص اصولوں کی روشنی میں دیکھتا ہوں جنہیں میں نے فکرِ اقبال سے اخذ کیا ہے۔ علامہ اقبال کا اپنا دعویٰ تھا کہ ان اصولوں کی روشنی میں تاریخ کو دیکھنے سے مستقبل کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔اُن کا دعویٰ سچ نکلا تو میری مجبوری ہے۔ اُن کا کمال ہے۔
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ہماری اجتماعی رائے ہی ہماری تقدیر ہوتی ہے۔ اگر ہم یہ جان سکیں کہ ہماری اجتماعی رائے کیا ہے تو ہم جان سکتے ہیں کہ قوم کی تقدیر کیا ہے۔ جس طرح مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اُس کی تعبیر کر کے ملک میں آیندہ اکیس برس میں ہونے والے واقعات بتا دئیے اور یہ بھی بتایا کہ ان سے نمٹنے کے لیے کس تیاری کی ضرورت ہے۔ بالکل اِسی طرح پاکستان کی "بادشاہ" ہماری اجتماعی رائے ہے۔ ہماری اجتماعی رائے جو بھی خواب دیکھے گی وہ ضرور پورا ہو گا۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں "سب کی رائے" اور "اجتماعی رائے" میں فرق سمجھنا پڑے گا۔
آپ نے وہ قصّہ سُنا ہو گا کہ کہ ایک بوڑھا اپنے لڑکے اور ایک گدھے کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ گدھے کے ساتھ چلنے والے خود  بھی گدھے ہیں کیونکہ پیدل جا رہے ہیں، سوار کیوں نہیں ہو جاتے۔ دونوں گدھے پر بیٹھ گئے تو کسی نے کہا کہ جانور پر بہت بوجھ ہے۔ بوڑھا اُتر گیا تو کسی نے کہا کہ لڑکا بدتمیز ہے، خود سوار ہے اور باپ پیدل چل رہا ہے۔ لڑکا اترا اور باپ بیٹھا تو باپ کو خودغرضی کا طعنہ ملا۔ آخر دونوں نے ایک بانس پر گدھے کو باندھ کر کاندھوں پر اُٹھا لیا۔ پُل پر سے گزرتے ہوئے وہ بانس گدھے سمیت دریا میں گر گیا۔ بوڑھے نے افسوس کرتے ہوئے کہا، "ہم نےتو  سب کو خوش کیا۔ باقی خدا کی مرضی!" ہم میں سے کسی نے یہ کہانی نہ سنی ہو تب بھی تھوڑے بہت تجربے کے بعد سمجھ میں آ جاتا ہے کہ "سب کی رائے" کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکتا۔
"سب کی رائے" سے بالکل مختلف ایک اور چیز بھی ہے جسے اجتماعی رائے، عمومی رائے یا متفقہ رائے کہہ سکتے ہیں۔ کہانی پر دوبارہ غور کیجیے کہ بوڑھا اور لڑکا جن آرأ پر عمل کرتے رہے اُن میں سے کوئی بھی متفقہ رائے نہیں تھی۔ متفقہ رائے تب ہوتی کہ تمام رائے دینے والوں کو جمع کر کے کہتے کہ پہلے تم لوگ فیصلہ کر لو کہ چاہتے کیا ہو۔ جب تم سب کسی ایک بات پر متفق ہو  گے، ہم اُس کے مطابق عمل کریں گے ۔ اُس کے بعدجو بھی اعتراض کرے وہ خود سب سے بڑا گدھا قرار دیا جائے۔
متفقہ رائے کی مثال  مولانا روم کی مشہور حکایت بھی ہے کہ چار مسافروں نے کہیں سے ایک سکّہ پایا۔ جھگڑنے لگے کہ کیا چیز خریدی جائے۔ اپنی اپنی زبانوں میں وہ سب ایک ہی پھل کا نام لے رہے تھے لیکن چونکہ ایک دوسرے کی زبانوں  سے ناواقف تھے، اِس لیے جھگڑ رہے تھے۔ مولانا روم کہتے ہیں کہ اُس وقت اگر وہاں کوئی ایسا شخص آ جاتا جو چاروں زبانوں سے واقف ہوتا تو کہہ دیتا کہ تم سب اپنا سکّہ مجھے دو۔ میں تمہارے سامنے وہ چیز لا کر رکھ دوں گا جو تم چاروں کو مطمئن کر دے گی۔  
میری کتاب قوم کی "متفقہ رائے" کی مختصر ترین تاریخ ہے۔ جب تک ہم اپنی متفقہ رائے دریافت نہ کریں گے، جمہوریت  کے ساتھ وہی معاملہ ہوتا رہے گا جو گدھے کے ساتھ ہوا تھا۔ ہمارے یہاں کوئی وزیراعظم اپنے عہدے کی معیاد پوری نہیں کر سکا یعنی ہر دفعہ منزل پر پہنچنے سے پہلے گدھا پُل سے نیچے گر جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر دفعہ بچے خوش ہو کر تالیاں کیوں پیٹتے ہیں، منچلے مٹھائیاں کیوں بانٹتے  ہیں اور بڑے بوڑھے اطمینان کی سانس کیوں لیتے ہیں؟   جمہوریت کا مطلب عوام کی مرضی ہے اور پاکستانی عوام کی مرضی یہی معلوم ہوتی ہے کہ منتخب وزیراعظم برطرف ہوتے رہیں۔ کسی برطرفی پر کوئی سخت ردِ عمل یا پرزور احتجاج سامنے نہیں آیا۔ شاید پچھلے مواقع کے بارے میں آپ کی یادداشت مِٹ مِٹا گئی ہو لیکن تازہ ترین منظرنامہ تو سامنے ہے۔
آیندہ کے حالات بھی اس پر منحصر ہیں کہ ہماری اجتماعی رائے کیا ہے۔ جہاں تک "سب کی رائے" کا تعلق ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے نے انصاف کا دروازہ کھولا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ فیصلے کی بنیاد کمزور ہے یعنی وہ بات ناگوار گزری ہے جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ اُمتیں اور بھی ہیں، اُن میں گنہگار بھی ہیں، یعنی  دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی بدعنوان رہنما ہیں، اُن پر بھی برق گرنی چاہیے۔ کچھ دلوں میں وسوسے اُٹھ رہے ہیں کہ کسی اندرونی یا بیرونی قوّت کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی نے مٹھائی کھا کر کہا کہ عمران خاں جیت گیا اور کسی نے لسّی پی کر کہا کہ عمران کو بھی نااہل ثابت کر سکتے ہیں  (اُس ستم ظریف کی بات رہنے دیجیے جس نے کہا کہ میاں نواز شریف کے نیک ہونے کی نشانی یہ ہے کہ جمعے والے دن رخصت ہوئے)۔
یہ سب اشارے ہیں۔ وہ چیز کیا ہےجس کے لیے یہ اشارے ہو رہے ہیں؟ جیسے حکایت میں ایک مسافر چاہتا تھا کہ انگور خریدا جائے، دوسرا استافیل چاہتا تھا اور تیسرے کو عنب درکار تھا۔ لیکن اصل میں ایک مخصوص پھل کے یہ سب نام الگ الگ زبانوں میں تھے۔ اگر اُس ملک کا کوئی شخص غلطی سے سمجھ بیٹھتا کہ انگور کا مطلب آم،  استافیل کا سیب اور عنب کا تربوز ہے ، اور یہ سب چیزیں لا کر رکھ دی جاتیں تب بھی مسافروں کی تسلی نہ ہوتی۔
ہمیں بھی سمجھنا ہو گا کہ ہم سب بظاہر الگ الگ باتوں میں کون سی ایک چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ہم سب چاہتے کیا ہیں اور ہماری متفقہ رائے کیا ہے۔
ہم یہ بات اُسی وقت جان سکیں گے جب جاننا چاہیں گے۔ اور تب جاننا چاہیں گے جب ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہوتا وہی ہے جو ہماری اجتماعی رائے ہوتی ہے۔ یہی بات میں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بیان کی تھی۔  کتاب کے بارے میں مزید تفصیل جاننے یا اسے ایمزن کی ویب سائٹس سے خریدنے کا صفحہ میری انگریزی ویب سائٹپر ہے۔ لیکن اگر مفت ڈاؤن کرنی ہے تو وہ یہیں سے کر لیجیے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔