اگست ۱۹۲۴ء میں کابل میں ایک احمدی کو مرتد ہونے کے جرم میں سنگسار کیا گیا۔ یہ فیصلہ افغانستان کی عدالتوں نے دیا تھا۔ دوسرے ممالک میں یہ خبر کچھ اس لیے بھی حیرت سے سنی گئی کہ اُس وقت افغانستان کے حکمراں امان اللہ خاں اپنی روشن خیالی کی وجہ سے مشہور تھے۔ گزشتہ سال انہوں نے مذہبی آزادی کا اعلان بھی کیا تھا۔
سنگساری کے واقعے پر تین طرح کے ردِ عمل سامنے آئے۔ مغربی پریس نے شدید احتجاج کیا۔ ہندوستان میں ہندو پریس نے کڑی تنقید کی۔ انہوں نے لکھا کہ امیر امان اللہ نے قدامت پسند علمائے کرام کو خوش کرنے کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے۔ بعض مسلم اخبارات بھی تنقید میں شامل ہوئے اور واقعے کو "افسوسناک" قرار دیا۔ یہ وہ نقطۂ نظر تھا جسے آج کی اصطلاح میں ہم شاید "لبرل" کہیں گے۔
ردِ عمل کی دوسری قسم یہ تھی کہ روزنامہ "زمیندار" نے سرخی لگائی، "قادیانی ملحد کی سنگساری" اور خبر کچھ اِس انداز میں بیان کی کہ مثلاً "اس سیاہ کار بدکردار کی سنگساری کے موقع پر ملکی اور فوجی اشخاص کا بہت بڑا اجتماع جمع ہو گیا تھا۔" جمعیت العلمأ کی طرف سے افغان حکومت کو تعریفی ٹیلی گرام بھیجا گیا۔ غالباً آج کی زبان میں بہت سے لوگ ردِ عمل کی اِس دوسری قسم کو "مذہبی انتہاپسندی" یا اِسی طرح کا کوئی نام دیں گے۔
لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کچھ ہی ہفتے بعد کانگریس کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں جمعیت العلمأ کے صدر مولوی کفایت اللہ نے کہا کہ تمام مذاہب کی تعلیمات میں ہم آہنگی ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اسلام میں مرتد کی سزا موت نہیں ہے تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ قانون صرف اسلامی ممالک میں نفاذ کے لیے ہے۔
ان دونوں سے مختلف ایک تیسری قسم کا ردِ عمل بھی تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سولہویں اجلاس میں جو اُس برس دسمبر کے آخر میں ہوا، اجلاس کے صدر رضا علی نے کہا، "اگر یہ تاثر عام ہو گیا کہ مسلم حکومتیں شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرنے پر تیار نہیں ہیں تو دنیا میں ایک عظیم اخلاقی قوت کے طور پر اسلام کی حیثیت کمزور ہو جائے گی۔" اِس موقف اور "لبرل ازم" میں فرق یہ ہے کہ یہاں دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی قوت کی فکر مقدم ہے۔
یہ واقعات خاصی تفصیل کے ساتھ میری آیندہ تصنیف "اقبال: دورِ عروج" میں شامل ہیں جو عنقریب شائع ہو رہی ہے۔ یہاں ان کا خلاصہ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بھی اِس قسم کے واقعات پر ہمارے یہاں شاید یہی تین طرح کے ردِ عمل سامنے آتے ہیں۔ اِن میں سے پہلے دونوں موقف آج بھی پورے زور و شور سے بیان ہوتے ہیں لیکن تیسرے کو عام طور پر زبان نہیں ملتی۔ حالانکہ یہ سمجھنا شاید غلط نہ ہو گا کہ ایک بہت بڑی تعداد بلکہ شاید اکثریت کا نظریہ آج بھی یہی ہے۔
1 تبصرے:
If Iqbal wrote his Shiqwa today he would have been killed before even have time for Jawab-e-shiqwa. We have really failed as a nation and as Ummah. We have produced the most working factory of producing street-power fatwas and taking law and the religion in our own hands. The other nations should really learn from us how to point fingers and stamp the others as Kafir.From time to time we find one group and stamp them as being Kafir be it Shia, Sunnis or the Ahmedias. The one who never opened up the Quran, who never did his prayers, the bribed one, the one selling drugs, the one who is into alcohol and prostetute, and the common "welah" man who just want to see some action in the streets with his mobile for cathing moments and upload them on social medias all those ppl gathers on one shout to safe the name of the "Islam". Iam so ashamed for being a part of this so called muslim society who never ever understood the meaning of Islam. They are Summun, bukmun, umyuin...
Thanks Sir for the post it, I just wish we could stop selling us to those mindset who leads us to destruction as nation and human beings.
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔