پندرہ سولہ برس پہلے جب علامہ اقبال کے بارے میں پہلی کتاب شائع ہوئی تو میرے سامنے صرف یہی مقصد تھا کہ اقبال کے بارے میں جو کچھ بھی معلوم ہے، اُسے اِکٹھا کر دُوں۔ اس دوران میری بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن میری تحقیق کاسلسلہ صحیح معنوں میں گزشتہ برس مارچ میں مکمل ہوا ہے۔
جناح: مقدمۂ پاکستان
اُس کے نتیجے میں سب سے اہم بات یہ میرے سامنے آئی ہےکہ قائداعظم کے دعوے کے مطابق برصغیر کو کانگرس، گاندھی یا اونچی ذات کی ہندو قیادت نے آزاد نہیں کروایا تھا اور نہ ہی انگریز اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے یہ خطہ چھوڑ کر چلے گئے۔ بلکہ پورے برصغیر کو آل انڈیا مسلم لیگ نے آزاد کروایا۔
دوسری اہم بات یہ سامنے آئی کہ قائداعظم نے جب 1936 میں مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کیا اُس کے بعد سے اپنی وفات تک قوم سے ہر خطاب میں یہی کہا کہ ہمارا سب سے پہلا مقصد غربت دُور کرنا ہے، اُس کے بعد ہی کسی اور طرف توجہ دی جا سکتی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اُنہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں بھی غریبوں کا استحصال ہوتا رہے تو ’’مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے‘‘ (سابقہ مشرقی پاکستان کی فلم ’’بھیا‘‘ کا مرکزی خیال یہی مشہور تقریر ہے)۔ بعد میں بھی اُنہوں نے یہی کہا کہ پاکستان بجائے خود مقصد نہیں ہے بلکہ اسلامی سماجی انصاف کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
یہ دونوں باتیں اس لیے اہم ہیں کہ قوم دو چیزوں کا نام ہے۔ اول یہ کہ ماضی میں ہم نے کون سے کارنامے اکٹھے انجام دئیے ہیں۔ دوم یہ کہ آیندہ ہم مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں (علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں جس نظریے کا حوالہ دیا ہے، اُس کے مطابق قوم کی تعریف یہی ہے)۔ چنانچہ قائداعظم کے لحاظ سے ہمارا قومی وجود حقیقت میں اِس چیز کا نام ہے کہ پورے برصغیر کو آزادی ہم نے دلوائی (نہ کہ کسی اور نے)۔ اور ہم ایک ایسا معاشرہ بنانے کےلیے اکٹھے ہوئے ہیں جہاں غربت اور خوف کا تصوّر بھی نہ کیا جا سکے(علامہ اقبال کی اصطلاح میں اس کا نام ’’مرغدین‘‘ہے)۔
اگر ہمیں یہ دونوں باتیں معلوم نہیں ہیں تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ ہم اپنے قومی وجود کے منکر ہیں۔بدقسمتی سے آج ہر تعلیم یافتہ پاکستانی کی کیفیت یہی ہے (بلکہ ایک مدت سے یہی کیفیت ہے)۔
یہ بات معلوم ہونے کے بعد میں نے سب سے پہلے انگریزی میں ایک چھوٹی سی کتاب ’’جناح: مقدمۂ پاکستان‘‘لکھی۔ اس میں صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائداعظم کا نقطۂ نظر وہی تھا جو میں نے اوپر بیان کیا۔ فی الحال یہ بحث نہیں چھیڑی ہے کہ یہ نقطۂ نگاہ درست ہے یا نہیں ہے۔میں یہ بحث اپنی آیندہ تحریروں میں پیش کر رہا ہوں اس لیے ’’جناح: مقدمۂ پاکستان ‘‘ایک طرح سے میری آیندہ تصانیف کا مقدمہ ہے۔
وحید مراد اور ہمارا عہد
اس کے بعد میری دوسری تصنیف ’’وحید مراد اور ہمارا عہد‘‘ ہے، جو حقیقت میں وحید مراد کی اُس سوانح کا اُردو ایڈیشن ہے جو میں نے 2015 میں انگریزی میں شائع کی تھی لیکن اُردو ایڈیشن میں بہت سے اضافے بھی ہیں۔
اِس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ قائداعظم کے وفادار رہے، اُن کے ادبیات اور فنونِ لطیفہ، اور اُن کی سوچ کیا رہی ہے۔ یہ کتاب ایک عام پاکستانی کے لیے ہے اس لیے میں نے فرض کر لیا ہے کہ اسے پڑھنے والے نہ صرف قائداعظم کے وفادار ہیں بلکہ اُن کے ساتھ مل کر خدا سے جو عہد کیا تھا، اُسے نبھانے پر تیار بھی ہیں۔
میرا ارادہ تھا کہ میں اِسے اپنی ویب سائٹ پر قسط وار شائع کروں لیکن شاہد اعوان نے پیشکش کی کہ پہلے اسے دانش کی ویب سائٹ پر شائع کر دیا جائے اور بعد میں کبھی میں اسے اپنی ویب سائٹ پر بھی پیش کر لوں۔ میں اس تعاون کے لیے ان کا شکرگزار ہوں۔ 24 نومبر2018 سے 11جنوری 2019 تک اس کی دس اقساط شائع ہوئی ہیں (اِن تمام قسطوں کے لِنک میں ایک علیحدہ صفحے پر پیش کر رہا ہوں)۔
آخری قسط میں، میں نےلکھا ہے کہ وحید مراد کے سامنے ایک ایسی قوم تھی جو ’’ خدا کے وجود کا اقرار کرتی تھی لیکن اپنے وجود کی منکر تھی!‘‘مجھے اُمید ہے کہ اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اپنے وجود سے اِنکار کا کیا مطلب ہے۔ہم اپنے قومی وجود کے منکر ہیں اگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ برصغیر کو آزادی ہم نے دلوائی نہ کہ کسی اور نے، اور ہم وہ معاشرہ حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جسے اقبال نے’’مرغدین‘‘ کا نام دیا ہے۔
بعض پڑھنے والوں نے فرمایش کی ہے کہ میں آیندہ جو کچھ لکھوں اُس میں بھی وحید مراد کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں اِس کی بہترین صورت یہی ہے کہ میں وحید مراد کی وفات سے آج تک کی کہانی بھی لکھ ڈالوں لیکن میں یہ کام کچھ عرصہ بعد شروع کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کہانی ٹھیک سے بیان کر دی جائے تو اِس سے ایک اور نتیجہ بھی حاصل ہو گا۔ قائداعظم کے اِس دعوے کے ثبوت ہمیں صرف ماضی میں نہیں بلکہ آ ج کے جنوبی ایشیا میں اپنی نگاہوں کے سامنے دکھائی دینے لگیں گے اور سب سے بڑا ثبوت یہ ہوگا کہ اِس وقت جنوبی ایشیا جن مسائل سے دوچار ہے اُنہیں حل کرنے کے لیے صرف اور صرف پاکستان ہی رہنمائی کر سکتا ہے بشرطیکہ پہلے ہم متحد ہو کر ’’سیمرغ ‘‘ کی طرح ایک وجود بن جائیں:
ربط و ضبطِ ملّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اِس نکتے سے اب تک بیخبر
اگر ممکن ہوا یعنی اگر آپ نے پسند کیا تو ہو سکتا ہے کہ دونوں حصے کتابی صورت میں شائع کر کے اس برس وحید مراد کی برسی پر یہ کتاب پیش کی جا سکے۔ اِس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ مجھے ضرور بتائیے گا۔
اقبال کی منزل
جیسا کہ میں نے کہا ایک مدّت سے میری تحقیق کا اصل موضوع علامہ اقبال کی زندگی ہے اور یہ تحقیق پچھلے برس مارچ میں مکمل ہوئی۔ اِس کے نتیجے میں میں نے تین کتابیں لکھی ہیں، جن کے نام ’’اقبال کی جستجو ‘‘، ’’اقبال کا راستہ ‘‘ اور ’’اقبال کی منزل ‘‘ ہیں ( ان تینوں کتابوں کا اقبال کی اُن سوانح سے کوئی تعلق نہیں ہے جو میں نے اس سے پہلے پیش کر رکھی ہیں کیونکہ اب میرے سامنے پہلے سے کہیں زیادہ مکمل حقائق موجود ہیں)۔
ان میں سے ’’اقبال کی منزل ‘‘ انشأاللہ 23 مارچ پر رائٹ وژن فاؤنڈیشن لاہور کی طرف سے شائع ہو رہی ہے۔ یہ کتاب 1927 سے شروع ہوتی ہے اور اقبال کی وفات کے چند برس بعد 1946 پر ختم ہوتی ہے۔ میں نے یہ زمانہ اس لیے منتخب کیا ہے کہ قائداعظم کے مطابق تصوّرِ پاکستان کا ارتقأ 1927 میں شروع ہوا اور 1946 میں تکمیل کو پہنچا۔ اس پورے عمل میں اقبال نے جو حصہ لیا اُس کا اعتراف سبھی کرتے ہیں لیکن ابھی تک وہ شاید ٹھیک سے سامنے نہیں آیا ہے۔
جن لوگوں نے ’’وحید مراد اور ہمارا عہد ‘‘ کی قسطیں پڑھی اور پسند کی ہیں، اُن سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ ’’اقبال کی منزل ‘‘ کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیے (یہ بات میری اگلی تحریر پڑھ کر آپ پر ضرور واضح ہو جائے گی)۔ فی الحال یہ کہنا ہے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک نئی یونیورسٹی کی بنیاد ہے جو کسی عمارت کی بجائے ہمارے دلوں میں قائم ہونی چاہیے۔ میں یہ کتاب خاص طور پر نوجوانوں اور عام پاکستانیوں کے لیے پیش کر رہا ہوں، اس لیے اگلے جمعے میں تفصیل کے ساتھ اس کا تعارف کرواؤں گا۔
دوسری اہم بات یہ سامنے آئی کہ قائداعظم نے جب 1936 میں مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کیا اُس کے بعد سے اپنی وفات تک قوم سے ہر خطاب میں یہی کہا کہ ہمارا سب سے پہلا مقصد غربت دُور کرنا ہے، اُس کے بعد ہی کسی اور طرف توجہ دی جا سکتی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اُنہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں بھی غریبوں کا استحصال ہوتا رہے تو ’’مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے‘‘ (سابقہ مشرقی پاکستان کی فلم ’’بھیا‘‘ کا مرکزی خیال یہی مشہور تقریر ہے)۔ بعد میں بھی اُنہوں نے یہی کہا کہ پاکستان بجائے خود مقصد نہیں ہے بلکہ اسلامی سماجی انصاف کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
یہ دونوں باتیں اس لیے اہم ہیں کہ قوم دو چیزوں کا نام ہے۔ اول یہ کہ ماضی میں ہم نے کون سے کارنامے اکٹھے انجام دئیے ہیں۔ دوم یہ کہ آیندہ ہم مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں (علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں جس نظریے کا حوالہ دیا ہے، اُس کے مطابق قوم کی تعریف یہی ہے)۔ چنانچہ قائداعظم کے لحاظ سے ہمارا قومی وجود حقیقت میں اِس چیز کا نام ہے کہ پورے برصغیر کو آزادی ہم نے دلوائی (نہ کہ کسی اور نے)۔ اور ہم ایک ایسا معاشرہ بنانے کےلیے اکٹھے ہوئے ہیں جہاں غربت اور خوف کا تصوّر بھی نہ کیا جا سکے(علامہ اقبال کی اصطلاح میں اس کا نام ’’مرغدین‘‘ہے)۔
اگر ہمیں یہ دونوں باتیں معلوم نہیں ہیں تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ ہم اپنے قومی وجود کے منکر ہیں۔بدقسمتی سے آج ہر تعلیم یافتہ پاکستانی کی کیفیت یہی ہے (بلکہ ایک مدت سے یہی کیفیت ہے)۔
یہ بات معلوم ہونے کے بعد میں نے سب سے پہلے انگریزی میں ایک چھوٹی سی کتاب ’’جناح: مقدمۂ پاکستان‘‘لکھی۔ اس میں صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائداعظم کا نقطۂ نظر وہی تھا جو میں نے اوپر بیان کیا۔ فی الحال یہ بحث نہیں چھیڑی ہے کہ یہ نقطۂ نگاہ درست ہے یا نہیں ہے۔میں یہ بحث اپنی آیندہ تحریروں میں پیش کر رہا ہوں اس لیے ’’جناح: مقدمۂ پاکستان ‘‘ایک طرح سے میری آیندہ تصانیف کا مقدمہ ہے۔
وحید مراد اور ہمارا عہد
اس کے بعد میری دوسری تصنیف ’’وحید مراد اور ہمارا عہد‘‘ ہے، جو حقیقت میں وحید مراد کی اُس سوانح کا اُردو ایڈیشن ہے جو میں نے 2015 میں انگریزی میں شائع کی تھی لیکن اُردو ایڈیشن میں بہت سے اضافے بھی ہیں۔
اِس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ قائداعظم کے وفادار رہے، اُن کے ادبیات اور فنونِ لطیفہ، اور اُن کی سوچ کیا رہی ہے۔ یہ کتاب ایک عام پاکستانی کے لیے ہے اس لیے میں نے فرض کر لیا ہے کہ اسے پڑھنے والے نہ صرف قائداعظم کے وفادار ہیں بلکہ اُن کے ساتھ مل کر خدا سے جو عہد کیا تھا، اُسے نبھانے پر تیار بھی ہیں۔
میرا ارادہ تھا کہ میں اِسے اپنی ویب سائٹ پر قسط وار شائع کروں لیکن شاہد اعوان نے پیشکش کی کہ پہلے اسے دانش کی ویب سائٹ پر شائع کر دیا جائے اور بعد میں کبھی میں اسے اپنی ویب سائٹ پر بھی پیش کر لوں۔ میں اس تعاون کے لیے ان کا شکرگزار ہوں۔ 24 نومبر2018 سے 11جنوری 2019 تک اس کی دس اقساط شائع ہوئی ہیں (اِن تمام قسطوں کے لِنک میں ایک علیحدہ صفحے پر پیش کر رہا ہوں)۔
آخری قسط میں، میں نےلکھا ہے کہ وحید مراد کے سامنے ایک ایسی قوم تھی جو ’’ خدا کے وجود کا اقرار کرتی تھی لیکن اپنے وجود کی منکر تھی!‘‘مجھے اُمید ہے کہ اب یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اپنے وجود سے اِنکار کا کیا مطلب ہے۔ہم اپنے قومی وجود کے منکر ہیں اگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ برصغیر کو آزادی ہم نے دلوائی نہ کہ کسی اور نے، اور ہم وہ معاشرہ حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جسے اقبال نے’’مرغدین‘‘ کا نام دیا ہے۔
بعض پڑھنے والوں نے فرمایش کی ہے کہ میں آیندہ جو کچھ لکھوں اُس میں بھی وحید مراد کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں اِس کی بہترین صورت یہی ہے کہ میں وحید مراد کی وفات سے آج تک کی کہانی بھی لکھ ڈالوں لیکن میں یہ کام کچھ عرصہ بعد شروع کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کہانی ٹھیک سے بیان کر دی جائے تو اِس سے ایک اور نتیجہ بھی حاصل ہو گا۔ قائداعظم کے اِس دعوے کے ثبوت ہمیں صرف ماضی میں نہیں بلکہ آ ج کے جنوبی ایشیا میں اپنی نگاہوں کے سامنے دکھائی دینے لگیں گے اور سب سے بڑا ثبوت یہ ہوگا کہ اِس وقت جنوبی ایشیا جن مسائل سے دوچار ہے اُنہیں حل کرنے کے لیے صرف اور صرف پاکستان ہی رہنمائی کر سکتا ہے بشرطیکہ پہلے ہم متحد ہو کر ’’سیمرغ ‘‘ کی طرح ایک وجود بن جائیں:
ربط و ضبطِ ملّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اِس نکتے سے اب تک بیخبر
اگر ممکن ہوا یعنی اگر آپ نے پسند کیا تو ہو سکتا ہے کہ دونوں حصے کتابی صورت میں شائع کر کے اس برس وحید مراد کی برسی پر یہ کتاب پیش کی جا سکے۔ اِس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ مجھے ضرور بتائیے گا۔
اقبال کی منزل
جیسا کہ میں نے کہا ایک مدّت سے میری تحقیق کا اصل موضوع علامہ اقبال کی زندگی ہے اور یہ تحقیق پچھلے برس مارچ میں مکمل ہوئی۔ اِس کے نتیجے میں میں نے تین کتابیں لکھی ہیں، جن کے نام ’’اقبال کی جستجو ‘‘، ’’اقبال کا راستہ ‘‘ اور ’’اقبال کی منزل ‘‘ ہیں ( ان تینوں کتابوں کا اقبال کی اُن سوانح سے کوئی تعلق نہیں ہے جو میں نے اس سے پہلے پیش کر رکھی ہیں کیونکہ اب میرے سامنے پہلے سے کہیں زیادہ مکمل حقائق موجود ہیں)۔
ان میں سے ’’اقبال کی منزل ‘‘ انشأاللہ 23 مارچ پر رائٹ وژن فاؤنڈیشن لاہور کی طرف سے شائع ہو رہی ہے۔ یہ کتاب 1927 سے شروع ہوتی ہے اور اقبال کی وفات کے چند برس بعد 1946 پر ختم ہوتی ہے۔ میں نے یہ زمانہ اس لیے منتخب کیا ہے کہ قائداعظم کے مطابق تصوّرِ پاکستان کا ارتقأ 1927 میں شروع ہوا اور 1946 میں تکمیل کو پہنچا۔ اس پورے عمل میں اقبال نے جو حصہ لیا اُس کا اعتراف سبھی کرتے ہیں لیکن ابھی تک وہ شاید ٹھیک سے سامنے نہیں آیا ہے۔
جن لوگوں نے ’’وحید مراد اور ہمارا عہد ‘‘ کی قسطیں پڑھی اور پسند کی ہیں، اُن سے مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ ’’اقبال کی منزل ‘‘ کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیے (یہ بات میری اگلی تحریر پڑھ کر آپ پر ضرور واضح ہو جائے گی)۔ فی الحال یہ کہنا ہے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک نئی یونیورسٹی کی بنیاد ہے جو کسی عمارت کی بجائے ہمارے دلوں میں قائم ہونی چاہیے۔ میں یہ کتاب خاص طور پر نوجوانوں اور عام پاکستانیوں کے لیے پیش کر رہا ہوں، اس لیے اگلے جمعے میں تفصیل کے ساتھ اس کا تعارف کرواؤں گا۔